پاکستانی معاشرہ کئی اقسام کے معاشرتی و اخلاقی چیلنجز سے دوچار ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ایک ایسا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے جس سے نہ صرف اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ معاشرتی دھوکہ دہی کی ایک سنگین شکل بھی ہے بات ہو رہی ہے ان جعلی خواجہ سرا کی جو خود کو خواجہ سرا ظاہر کرکے مختلف غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن اس حوالہ سے قانون نے مکمل چپ سادھ رکھی ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران پورے پاکستان خواجہ سراوں کے حوالہ سے متعدد واقعات مارپیٹ کے واقعات منظر عام پر آئے بعد واقعات میں تو انہوں نے پولیس والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا
پاکستان میں خواجہ سرا برادری ایک پسماندہ اور محروم طبقہ ہے جسے طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہا ہے2018 میں ان کی شناخت کو قانونی حیثیت دی گئی، اور انہیں قومی شناختی کارڈ، ووٹ کا حق، اور روزگار میں کوٹہ دیا گیا۔ یہ ایک خوش آئند قدم تھا، لیکن اسی پیش رفت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نارمل لڑکوں نے خواجہ سرا کا روپ دھار کر نہ صرف اصل کمیونٹی کو بدنام کیا، بلکہ معاشرے میں اخلاقی انتشار کو مزید ہوا دی۔
راقم کے مشاہدے اور تحقیق کیساتھ ساتھ مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق، گلی محلوں، سڑکوں اور مخصوص علاقوں میں نظر آنے والے خواجہ سرا نما افراد میں سے 80 سے 90 فیصد دراصل عام مرد ہوتے ہیں، جو چہرے پر میک اپ، نسوانی لباس اور مخصوص انداز اپنا کر خود کو”خواجہ سرا“ ظاہر کرتے ہیں، انکا اصل مقصد کچھ اور ہوتا ہے جیسے یہ اس لبادے میں جنسی دھندے میں حصہ لے سکیں اور پھر ویڈیوز بناکر بھتہ وصول کر سکیں اہم وجہ محنت کے بغیر آمدن حاصل کر سکیں جعلی خواجہ سراءیہ عناصر نہ صرف معاشرے کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اصل خواجہ سرا برادری کے لیے بھی باعثِ شرمندگی اور نقصان دہ ہیں۔
جب کوئی خواجہ سرا سڑک پر بھیک مانگتا ہے، کسی شادی یا خوشی کی تقریب میں ناچتا ہے، یا معاشرتی تضحیک کا نشانہ بنتا ہے، تو اکثر لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان میں سے کون واقعی خواجہ سرا ہے اور کون نہیں۔ یوں پورا طبقہ بدنامی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جو افراد واقعی خواجہ سرا ہیں، وہ تعلیم، روزگار، اور عزت کے دروازے بند پا کر مزید تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس حساس مسئلے کا حل صرف الزام تراشی یا نفرت نہیں، بلکہ ذمہ دار حکمتِ عملی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس حوالہ سے اقدام کرے کہ حکومتی سطح پر شناخت کی تصدیق کا نظام قائم کیا جائے تاکہ اصلی اور جعلی افراد میں فرق کیا جا سکے قانون نافذ کرنے والے ادارے خواجہ سرا کے روپ میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں اصل خواجہ سرا افراد کے لیے باعزت روزگار، تعلیم، اور تربیت کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ کسی بھی مجبوری میں ان غلط راستوں کا رخ نہ کریں عوام میں آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ لوگ جعلی اور اصلی خواجہ سرا میں فرق سمجھ سکیں اور تعصب سے بچ سکیں۔
معاشرتی بگاڑ کی اصل جڑ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہر نسوانی لباس پہنے شخص کو خواجہ سرا سمجھ کر بدنام کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جعلی خواجہ سرا اور ان کے ذریعے ہونے والی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر کھل کر بات کریں، لیکن اصل برادری کو عزت، تحفظ اور موقع فراہم کریں۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب ہم سچائی کو انصاف کے ساتھ بیان کرسکے
(آصف شاہ)