جب کتبِ حدیث خون سے رنگین ہو گئیں

ضیاء الرحمن ضیاء/پشاور کی ایک عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم زبیریہ میں درس حدیث کی بابرکت محفل جاری تھی۔ استاد محترم سینکڑوں طلباء کو براہ راست اور آن لائن درس حدیث دے رہے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث مبارکہ کے الفاظ حضرت شیخ القرآن و الحدیث مولانا رحیم اللہ حقانی کی زبان پر تھے، تمام طلباء مدارس دینیہ کی مہکتی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہمہ تن گوش ہو کر ادب و احترام کے ساتھ استاد محترم کا سبق سن رہے تھے، ابھی سبق شروع ہوئے چند لمحات ہی گزرے تھے کہ درسگاہ میں زور دار دھماکا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پرامن اور بابرکت ماحول کا سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ نہتے اور معصوم طلباء جو چند لمحات قبل بالکل پرسکون انداز میں بیٹھے استاد محترم کا درس سن رہے تھے، ان کی چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ درسگاہ کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سے طلباء شہید اور زخمی ہو گئے۔ وہی طلباء جو کچھ دیر پہلے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے سبق پڑھ رہے تھے وہ آن کی آن میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ انا الیہ راجعون۔دھماکے کے وقت فیس بک پر درس حدیث لائیو دکھایا جا رہا تھا۔ مولانا رحیم اللہ حقانی کے درس کو صوبے کے عوام نہایت ذوق سے سنتے ہیں اس لیے ان کا درس فیس بک پر لائیو بھی دکھایا جاتا ہے، تاکہ جو حضرات براہ راست درس میں شرکت نہیں کر سکتے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ متاثرہ مدرسے کا شمار پشاور کے عظیم مدارس میں ہوتا ہے اور اس کا تعلیمی معیار بھی بہترین ہے جس کی وجہ سے اس کے طلباء وفاق المدارس کے امتحانات میں ملکی سطح پر پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔ مدرسہ کی طرف سے ختم بخاری شریف کے پروگرام کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بڑی تعداد میں علماء و عوام شرکت کرتے ہیں۔ اس سال بھی 14فروری کو ایک شادی ہال میں ختم بخاری کی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس عظیم اور نامور تعلیمی ادارے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہ دین و وطن کے دشمنوں کی نظر میں آگیا اور ظالموں نے یہاں تعلیم حاصل کرنے والے معصوم طلباء کا کس بے دردی سے قتل عام کیا کہ ان کا لہو مقدس کتابوں کو رنگین کر گیا۔ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن شہید کے خون کی گواہی مختلف چیزیں دیں گیں کسی کے خون کی گواہی، تلوار دے گی، کسی کے خون کی گواہی، نیزہ دے گا، کسی کی شہادت کی گواہی میدان جنگ میں دوڑنے والے گھوڑے دیں گے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کی گواہی اللہ کا قرآن دے گا کیونکہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور ان کے لہو پاک کے مقدس قطرے قرآن کریم کے اوراق پر گرے۔ آج جامعہ زبیریہ کے ہمارے ان بھائیوں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث پڑھتے ہوئے کتب حدیث پر جان دی یقینا ان کی شہادت کی گواہی یہ کتب حدیث دیں گیں۔ اللہ شہداء کے درجات کو بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے، اور واقعہ میں زخمی ہونے والے طلباء کو جلد از جلد صحت یاب فرمائے۔ 2014میں بھی پشاور میں ایک عظیم سانحہ رونما ہوا تھا جس میں ملک و ملت کے دشمنوں نے سکول کے نہتے طلباء اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا تھا، اس وقت ایک بار قوم یکجا ہو گئی تھی اور تمام سیاسی،سماجی اور دینی جماعتوں اور اداروں نے یک زبان ہو کر ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کا عزم کر لیا تھا۔ اس کے بعد پاک فوج نے دہشتگردوں کا قلعہ قمع کرنے کے لیے کمر کس لی اور ملک میں ان کا زور توڑ دیا لیکن ابھی تک انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے وقتا فوقتا ایسے افسوسناک سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں جو ملک کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ ایسے واقعات کے پیچھے صرف دہشتگرد گروہ ہی نہیں بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جن کے دہشتگرد ہم نے گرفتار بھی کیے بلکہ رنگے ہاتھوں پکڑے جو ملک میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں مصروف تھے اور انہوں نے خود اس کا اقرار بھی کیا لیکن ہم نے تمام ترثبوتوں کے باوجود نہایت بزدلی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا کہ انہیں بروقت سزا نہ دی۔ آج بھی کلبھوشن جیسے ملک دشمن دہشتگرد کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ ہم نے اسے گرفتار کرتے ہی سزا نہ دی بلکہ معاملہ لٹکا دیا اور بھارت کو عالمی عدالت میں جانے کا موقع مل گیا اور ہمیں اس کی سزا ملتوی کرنی پڑی، اب تک ہم اسے سزا نہیں دے سکے ابھی بھی ہماری حکومتیں اس کی منتیں کر رہے ہیں کہ اپنی سزا کے خلاف اپیل کرے۔ ہماری اسی بزدلی کی وجہ سے ایک بار پھر علم کے دشمنوں نے علم کی شمع بجھانے کی کوشش کی اور مدرسہ زبیریہ کی درس حدیث کی کلاس پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے آئے ہوئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کئی مہمان اس کی بارگاہ میں شرف باریابی کے لیے حاضر ہو گئے اور کئی ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں۔ اس واقعہ میں مسجد و مدرسہ کا تقدس پامال ہو ااور ساتھ کتب حدیث کی بھی بے حرمتی ہوئی۔ یہ تمام واقعات ناقابل برداشت ہیں جنہیں پاک وطن کا کوئی فرد برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے قوم کو پرعزم ہونا پڑے گا اور اپنی روایتی بزدلی کو ترک کرکے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہو گی تبھی ان واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں