دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو خودداری، غیرت اور اپنی قومی پہچان پر فخر کرتی ہیں۔ خودداری صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک طرزِ فکر، اور ایک طرزِ زندگی ہے۔ یہ انسان اور قوم دونوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس ملک میں خودداری کا چراغ بجھ جائے، وہاں غلامی کے اندھیرے چھا جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں کردار کمزور، نظریات مردہ، اور فیصلے دوسروں کے اشاروں پر ہونے لگتے ہیں۔
خودداری دراصل اپنے ضمیر، اپنی اقدار، اور اپنی محنت پر بھروسہ کرنے کا نام ہے۔ یہ اس احساس کا نام ہے کہ قومیں تبھی باوقار رہتی ہیں جب وہ اپنی خودی کو پہچانتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی خودی کو بیدار کرنے کے لیے فرمایا تھا:
> “خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے”
اقبال کا یہ پیغام صرف فرد کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ایک منشور ہے کہ قوموں کی بقا ان کی خودی میں پوشیدہ ہے۔
جب کسی ملک سے خودداری ختم ہو جاتی ہے تو وہاں قوم غلامی کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ فیصلہ سازی بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے، معیشت قرضوں پر، سیاست مفادات پر، اور تعلیم بے مقصدیت پر قائم ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں نوجوان اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جاتے ہیں، کیونکہ ان کے خواب کسی اور کے نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ تاریخ میں زوال پذیر سلطنتوں کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی ہے — خودداری کا خاتمہ۔ جب قوموں نے دوسروں کی تقلید کو اپنی شناخت سمجھ لیا، تو ان کا وجود مٹ گیا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان بھی اسی امتحان سے گزر رہا ہے۔ ہم نے خود انحصاری کی بجائے دوسروں کی امداد کو اپنی پالیسی بنا لیا ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے ایمان، اتحاد اور نظم کے نعرے پر جنم لیا، آج قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اپنی اقدار کے بجائے مغربی نمونوں پر چل رہا ہے، ہماری معیشت بیرونی اداروں کے رحم و کرم پر ہے، اور ہماری سیاسی قیادت قوم کی خدمت کے بجائے طاقت کی جنگ میں مصروف ہے۔ جب ایک قوم اپنے فیصلے خود نہیں کرتی، تو اس کی خودداری مر جاتی ہے، اور جب خودداری مر جائے تو قوم کا وجود صرف جغرافیہ رہ جاتا ہے، نظریہ نہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان تباہ ہو گیا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی ملبے میں تبدیل ہو گئے، لیکن جاپانی قوم نے بیرونی امداد پر انحصار نہیں کیا۔ انہوں نے محنت، نظم و ضبط، اور خودداری سے اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیا۔ آج وہی قوم ٹیکنالوجی اور معیشت میں دنیا کی صفِ اول میں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہر بحران کے بعد ہم بیرونی مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ عزت اور ترقی کبھی خیرات سے نہیں ملتی، بلکہ غیرت مند قومیں اپنی محنت سے اپنے حال بدلتی ہیں۔
قوم صرف زمین کے ٹکڑے پر بسنے والے لوگوں کا نام نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک عزم، اور ایک اجتماعی ارادہ ہے۔ جب کسی ملک کے افراد ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ ملک حقیقی معنوں میں قوم بن جاتا ہے۔ پاکستان میں آج سب سے بڑی ضرورت اسی سوچ کی ہے کہ ہم خود کو “میں” سے نکال کر “ہم” کی پہچان میں ڈھالیں۔ جب قوم متحد ہو جاتی ہے تو کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی، لیکن جب افراد بکھر جائیں تو ان کا انجام کمزوری، انحصار، اور بربادی ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خودداری صرف حکومتوں کا نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ قوم کی خودداری تب قائم ہوتی ہے جب عام آدمی اپنی عزتِ نفس کو پہچانتا ہے، جب مزدور اپنے کام میں ایمان داری دکھاتا ہے، جب استاد اپنی ذمہ داری کو عبادت سمجھتا ہے، جب سیاستدان ذاتی مفاد کے بجائے قومی وقار کو مقدم رکھتا ہے۔ قومیں اس وقت بنتی ہیں جب ان کے لوگ اپنے اندر عزت اور غیرت کا احساس زندہ رکھتے ہیں۔ یہ احساس ہی وہ بنیاد ہے جو ترقی، انصاف، اور اتحاد کی عمارت کو سہارا دیتی ہے۔
پاکستان کے نوجوان اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان میں سے بیشتر مایوسی، ناانصافی، اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ان میں صلاحیت ہے، جذبہ ہے، مگر مواقع نہیں۔ اگر یہی نوجوان خودداری اور خود انحصاری کے جذبے سے لبریز ہو جائیں تو پاکستان دنیا کی مضبوط ترین قوم بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں میں یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ ان کا مستقبل کسی غیر کے فیصلوں پر نہیں، بلکہ ان کی اپنی محنت، علم، اور سچائی پر منحصر ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں ایک باوقار مقام حاصل کرے تو ہمیں خودداری کو قومی منشور بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا، اپنی معیشت کو خود انحصاری پر لانا ہوگا، اور اپنی نوجوان نسل میں یہ جذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ قوموں کا عروج کسی معجزے سے نہیں ہوتا — یہ خودداری، محنت، اور اتحاد سے حاصل ہوتا ہے۔
خودداری ایک قوم کی روح ہے۔ جس ملک میں یہ روح زندہ رہے، وہاں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ لیکن جہاں خودداری ختم ہو جائے، وہاں ریاستیں محض جغرافیہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کا دار و مدار اسی ایک حقیقت پر ہے کہ ہم کب اپنی خودی کو پہچانتے ہیں۔ اگر ہم نے آج اپنی خودداری واپس نہ لی تو کل ہماری آزادی بھی دوسروں کے فیصلوں کی محتاج ہو جائے گی۔