از قلم عصمت اسامہ
خلافتِ عباسیہ کا دور تھا اور تاریخ کا سن 1258ء ۔ خلافت کا دل ” بغداد” علم و ادب ،فنون و ہنر کے کتب خانوں سے بھرا ہوا تھا۔ کئی کتب کے تراجم کے مراکز قائم تھے ۔صاحب_ حل وعقد تقریبآ روزانہ ہی علمی مجالس سجاتے اور کسی نہ کسی علمی یا فقہی مسئلہ پر بحث مباحثہ کیا جاتا۔
یہی وہ دور تھا جب تاتاریوں کے خانہ بدوش قبائل متحد و منظم ہوکر ہلاکو خان کی قیادت میں براعظم ایشیا میں بڑی باطل قوت بن کر ابھر رہے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی قتل و غارت گری اور اقتدار پر قبضے کی حرص اتنی بڑھی کہ یہ ہر شہر کو تاخت وتاراج کرنے لگے۔ یہ کالی آندھی کی مانند اٹھتے اور جہاں سے گذرتے انسانی بستیاں صفحہء ہستی سے مٹ کر رہ جاتیں۔ایسی ہی ایک گھٹا ٹوپ شام تھی جب ان تاتاریوں نے ” خلافتِ عباسیہ کے دل یعنی بغداد ” پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔
ہوائیں ساکن تھیں۔دریاۓ دجلہ خاموشی سے بہہ رہا تھا مگر فضا میں موجود پراسراریت ماحول کو بھاری کر رہی تھی۔ شہر کے کھاتے پیتے گھرانوں کے تعلیم یافتہ لوگ عمدہ لباس زیب تن کئے ہوۓ حلقہ بناۓ بیٹھے تھے ۔ان کے سامنے کتابیں کھلی ہوئی تھیں ،ہاتھوں میں اوراق اور قلم تھامے ہوۓ تقریباً ہر عمر کے علماء اور طلباء موجود تھے۔ موضوع _بحث یہ تھا کہ ” اگر مکھی کسی برتن میں گر جاۓ تو کیا پورا برتن ناپاک ہوجاۓ گا ؟”
صدر_ مجلس کی آواز گونجی ۔” جس نے اس موضوع کے حق میں دلائل دینے ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر اجازت طلب کرے اور پھر بتاۓ”. اتنے میں ایک نوجوان کمرے میں داخل ہوا اور مداخلت کرتے ہوۓ صدر سے مخاطب ہوا ۔” جناب مجھے معلوم ہوا ہے کہ عن قریب جنگ ہونے والی ہے!”۔
” کیا کہا؟” بہت سے لوگ بے ساختہ ہنس پڑے۔۔
صدر_ مجلس نے اشارے سے نوجوان کو خاموش ہونے اور کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ نوجوان اٹھ کے باہر چلاگیا۔۔۔
” ہاں جی ،پہلے اس مکھی کی قسم پر بات کرتے ہیں کہ وہ کون سی مکھی ہوگی؟” ایک صاحب علم شخصیت نے ہاتھ اٹھا کے گفتگو کا آغاز کیا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ نوجوان جو باہر گیا تھا ،دوبارہ کمرے میں کچھ گھبرایا ہوا سا داخل ہوا اور کہنے لگا” حضرت اب تو گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں شہر کی فصیلوں کے قریب آتی محسوس ہورہی ہیں ،کیا آپ شہریوں کو خبردار نہیں کریں گے ؟”۔
” دیکھیں ،ہماری مجلس کا طے شدہ موضوع ہوتا ہے جس پر سب مباحثے کی تیاری کرکے آتے ہیں اور شہر یوں کی حفاظت کرنا تو ویسے بھی سپاہیوں کا کام ہے ،ہمارا نہیں ہے،اگر وہ حفاظت نہیں کرتے تو انھیں ہی ناکام کہا جائے گا،ہمیں نہیں کہا جاۓ گا ،یہ ان کا فرض ہے ،ہم کیا کرسکتے ہیں؟” .
۔وہ نوجوان پھر باہر چلاگیا۔
” ہمارا اگلا موضوع سخن ہے کہ آخرت میں جانوروں کو بھی زندہ کیا جاۓ گا یانہیں؟”
ایک بزرگ اس موضوع پر اپنے دلائل دے رہے تھے ،طلباء ان کے دلائل قلم بند کرنے کے لئے تیز ہاتھ چلارہے تھے کہ ایک بار پھر وہ نوجوان آگیا ۔روتے ہوۓ کہنے لگا:
” حضرت آپ کم ازکم مسجد میں اعلان ہی کروادیں کہ وہ اپنے ہتھیار نکال لیں ۔چنگیز خان کے لشکر شہر کا بڑا دروازہ توڑ رہے ہیں۔ سپاہیوں کو ہمارے نوجوانوں کی کمک کی ضرورت پڑ سکتی ہے ،آپ قوم کو جگائیں ،متحد کریں خدارا”.
” میاں ہم اپنی بحث کا کوئی نتیجہ نکال لیں ،اس کے بعد دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے؟ آپ ہمیں ہمارا فریضہ نہ بتائیں ،آپ کو مجلس کے دوران بولنے کی اجازت نہیں ہے ،بڑوں کے سامنے ویسے بھی خاموش رہنا چاہئیے”.
بات ختم ہوگئی ۔
اسی لمحے، شہر کے مشرقی دروازے سے ایک شور اٹھا۔ تاتاریوں نے دروازہ توڑ ڈالا تھا۔ آگ، خون، چیخیں، اور ہر جانب موت ہی موت ۔نہ کوئی بزرگ بچ سکا نہ کوئی خاتون۔
انسانی کھوپڑیوں کو فٹ بال بناکے ٹھوکروں پر رکھا گیا۔
کتب خانوں کو جلا دیا گیا، دریائے دجلہ کا پانی سیاہ ہوگیا ۔کتنے ہی عالم قتل ہوئے، مگر اُن کے مباحث ادھورے رہ گئے۔
یہ صرف بغداد کی کہانی نہیں، بلکہ ہر اُس قوم کی کہانی ہے جو وقت کی آواز نہیں سنتی، جو اصل مسائل کی بجائے فرعی سوالات میں الجھ جاتی ہے، جسے غور وفکر کرنے سے زیادہ دوسروں پر اپنی قابلیت ظاہر کرنے کی پڑی رہتی ہے اور جب ہوش آتا ہے، تو دشمن دروازہ توڑ چکا ہوتا ہے!.
علم لازم ہے، مگر بصیرت کی اہمیت اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے اور لازم نہیں کہ بصیرت کسی ضعیف کے ہی پاس ہو ،کسی کم عمر کے پاس بھی ہوسکتی ہے جو حالات حاضرہ کا ادراک رکھتا ہو… اپنی ذات،اپنے دائرے سے اٹھ کر قوم کی فکر کرنا،وقت کے چیلنجز کا ادراک رکھنا اور آئندہ کے لئے تدابیر اختیار کرنا ایمانی بصیرت کی علامت ہے!
سنا ہے کہ ان دنوں امریکہ کے سفید محل میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تذکرے ہیں مگر پاکستان کے اندر ایک بڑی تعداد ایسے دانش وروں کی موجود ہے جو بہت اونچی آواز میں کہتے ہیں کہ فوج اپنی بیرکوں میں واپس جاۓ،فوج کا کام سرحدوں پر رہنا ہے بس۔ملک کے اندر دہشت گردوں کا صفایا اور امن وامان کا کام کوئی اور کرلے گا!
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ،خدا خیر کرے!
#