جبری شادیاں/عبدالجبارچوہدری

جبری شادی کا مسئلہ بہت ہی پرانا ہے زمانہ قدیم میں تو بیٹیوں کو فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔حضرت عمرؓ کے عہد کا ایک عظیم واقعہ ہے کہ جب مصر کے گورنر نے خلیفہ وقت کو لکھا کہ یہاں تو دریا کے

خشک ہونے سے بچنے اور اس کی سطح کم ہونے کے ڈر سے لوگ ہر سال ایک جوان سال عورت کو سنوار کر دریا کی نذر کر دیتے ہیں ،حضرت عمر فاروق نے دریا کے نام خط لکھا تو اس سال سے دریا کی سطح کبھی کم نہ ہوئی ،اب بھی بھت سے خطوں میں عورتیں مقامی رسم و رواج کی وجہ سے ظلم کا شکار ہوتی رہتی ہیں برصغیر میں تو مشترکہ خاندانی نظام ‘برادری ’زات اور سب سے بڑھ کر امارت اور گربت کے ایسے ایسے معیارات ہیں کہ جن کی خلاف ورزی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔جا ئیدادوں کی تقسیم کا ڈر دوسرے خاندان کو منتقلی کا خوف بھی جبری شادیوں کا سبب بنتا ہے

۔خطہ پوٹھوہار تحصیل گوجرخان اور تحصیل کلر سیداں سے اکثر خاندان گزشتہ کئی دہایوں سے انگلینڈ میں مستقل رہائش پزیر ہیں ان کی اولادیں جوان ہو چکی ہیں لڑکی یا لڑکا دونوں صورتوں میں والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شادی خاندان میں قریبی عزیز سے ہو مگر اکیسویں صدی کی روشن خیالی اور تہذیبوں کا ٹکراؤ بعض اوقات آڑے آ جاتا ہے یہاں تک کہ انتہائی اقدام کے نتیجہ میں بھیانک واقعات جنم لیتے ہیں۔ حکومت برطانیہ وقتا فوقتا اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے ۔ اور مقامی سطح پر سیمینار منعقد کرا کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ماضی بعید میں تو حکومت برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ بذات خود کلر سیداں کا دورہ کر چکے ہیں اور حال ہی میں برطانوی ہائی کمیشن نے گوجر خان میں سیمینار منعقد کر کے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

یہ بھی سچ ہے کہ اب اس طرح کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے رشتہ داریاں دم توڑ رہی ہیں ایک وقت تھا کہ بیرون ملک سے آنے والوں کے گھر ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا ،اب تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کون کب آیا اور کب گیا۔ایک سچ یہ بھی ہے کہ میڈیا کی بے پناہ ترقی اور ہر گھر میں نیٹ اور موبائل نے بھی روشن خیالی میں بہت اضافہ کیا ہے ترقی پذیر معاشرے بتدریج آگے بڑھتے ہیں مگر ہمارے ہاں دن اور رات میں طویل سفر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،بچہ ہو یا بچی وہ تمام مشاہدات کو تجربات میں بدلنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں جس سے طوفان آ جاتا ہے اور نظامم زندگی تہس نہس ہو جاتا ہے۔ پسند کے اظہار اور اس کو انجام تک پہنچانے کی خاطر ایسے ایسے افعال سر زد ہو جاتے ہیں جن سے نہ تو عزت باقی بچتی ہے اور نہ ہی زندگی ہمیں حقیقت کا آئینہ سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کی عادت اپنانا ہو گی رسوم و رواج دم توڑ رہے ہیں ِ روایات جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں اور مذہب کی تشریحات اپنے حق میں کرنے کی خاطر نجانے کیسی کیسی فتوی ٰ فیکٹریاں لگ چکی ہیں اسلامیاتی نظریاتی کونسل جیسے ادارے نے بھی پریس کانفرنس کے زریعے ’’چار شادیوں ‘‘ اور ’’طلاق‘‘جیسے موضوعات پر بحث کو عام کر دیا ہے ۔حال ہی میں ایک سروے سامنے آیا ہے کہ خلع کے بڑھتے مقدمات تشویش کا باعث ہیں حکومے ہمارے معاشرتی مسائل کو کیسے حل کر سکتی ہے اس کے لئے جرگہ مصالحتی کونسلیں اور رضائے الہٰی کی خاطر کام کرنے والوں کی اشد ضرورت ہے پاکستان میں غریب آدمی اڑھائی دو لاکھ سے کم کا جہیز نہیں دیتاا

ور امیر کی حد تو پندررہ لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور پچاس لاکھ اور ایک کروڑ تک پہنچ کاتی ہے،غرئب اور شریف گھرانوں کی اکثر بچیاں جہیز کی مجبوریوں کی وجہ سے بھی جبری شادی پر مجبور ہوتی ہیں سسرال والے جہیز اپنی طرف سے یا کوئی عزیز رشتہ دار اپنی مرضی کی جگہ رشتہ دینے کی صورت میں جہیز کی زمہ داری اٹھا لیتا ہے بعض صورتوں میں عمروں میں فرق بھی جبری شادی کا مؤ جب بنتا ہے۔ہمارا معاشرہ جس طرح دیگر معاملات میں بے اعتدالیوں کا شکار ہو رہا ہے شادی جیسے معاملات بھی بے

اعتدالی کا شکار ہو چکے ہیں خود ساختہ شرائط اور ان کے پورا کرنے کی صورت میں ہی رشتہ دینے کا عمل بھی بے اعتدالی کا سبب ہے ایک جاننے والوں نے شہر میں مکان اور پھر لڑکی کے نام کرانے کی شرط ٹھان لی نتیجہ جو بھی رشتہ آتا ناکام ہو جاتا بلاآخر ایک کم عمر لڑکے سے رشتہ جوڑ دیا گیا،جبری شادیوں کے نتائج بھی بہت بھیانک ہوتے ہیں سالہا سال لڑائی جھگڑوں میں گزر جاتے ہیں پھر اولاد کی صورت میں اس کی پرورش اچھی طرح نہیں ہو سکتی۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں