سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کے حالات واقعات کاجائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابی رسول سسرپیغمبرکے ایمان افروز واقعات پڑھ کرہرمسلمان کے ایمان میں اضافہ بھی ہوتاہے
اورمسلمان تازگی بھی محسوس کرتاہے غیرت ایمانی،صداقت وامانت شجاعت وخطابت جیسے اوصاف سے آپ کادامن ہمیشہ بھرارہتا
۔آپ کی ہی دعوت پرجلیل القدرنامورشخصیات نے اسلام قبول کیا جن میں سرفہرست حضرت عثمان،حضرت ابوعبیدہ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں آپ رحم دل انسان تھے آپ مظلوم مسلمانوں پرکفارکا ظلم وستم دیکھتابرداشت ناکرتے‘
دشمنان دین کے چنگل میں پھنسے مسلمانوں کوفوری خریدکرآزادکروادیتے‘ آپ کے آزادکردہ مسلمانوں میں مؤذن رسول حضرت بلال،حضرت زنیرہ، حضرت عامر بن فہیرہ،ام عبیس رض وغیرہ شامل ہیں
جن کوآپ نے ظالم وجابرمشرکین مکہ کی قیدسے آزادی دلائی۔ آپ نے اپنے آپ کواپنے گھرکواپنے خاندان کواپنے مال کوپیغمبراسلام پر قربان کرنے کے بعداپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کونبی کریم روف الرحیمﷺ کے عقدمیں دیا
جس سے آپ کوسسر پیغمبر اسلام کااعزازبھی حاصل ہے اورآپ کی بیٹی صدیقہ طیبہ طاہرہ ام المومنین کے مقام ومرتبہ پرفائزہوئی‘یہی وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ہے
جن کی پاک دامنی میں سورہ نورکی آیات میں اللہ نے خودگواہی دی۔ہجرت کے موقع پرحضور اکرم شفیع اعظم ﷺ صدیق اکبرؓ کے گھرپہنچے صدیق اکبرکوساتھ لیکرغارثور تک پہنچے
‘ غارثور تک پہنچنے کیلئے صدیق اکبر نے اپنے محبوب نبی کواپنے کندھوں پراٹھایاغارتک پہنچایاپھرغارکی صفائی کی اپنے محبوب نبی کوٹھہرایا اسی دوران صدیق اکبرکوسانپ نے ڈس لیا‘محبوب نبی نے اپنالعاب مبارک صدیق کی ایڑی پرلگایاجوفوری ٹھیک ہوگئی
۔ سفرہجرت میں بھی سیدناصدیق اکبرنے نبی کریم روف الرحیمﷺکی خدمت کی جب بھی کسی جنگ کے موقع پرمال خرچ کرنے کااعلان ہوتاصدیق اکبراپناسب مال لاکرراہ خدامیں اور اپنے محبوب نبی کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے سخاوت میں اس قدرآگے تھے
کہ غزوہ تبوک کے موقع پرجب نبوت کی زبان مبارک سے مال پیش کرنے کی ترغیب دی گئی توسیدناصدیق اکبرنے گھرکاساراسامان حتی کہ بدن کے کپڑے بھی راہ خدامیں پیش کردئیے
‘خودٹاٹ کالباس زیب تن کی اہمت استقامت اورحوصلہ اتناکہ جب نبی کریم روف الرحیم ﷺکاوصال ہواصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے ہوش کھو بیٹھے سیدنا فاروق اعظم جیسے مضبوط صحابی رسول بھی ہاتھ میں تلوارلئے یہ کہنے لگے کہ جس شخص حضور کی وفات کااعلان کیااس کاسرقلم کردوں گا
اس موقع پرصدیق اکبرنے فطرت بصیرت، حکمت، جرات، استقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے مجمع میں خطبہ دیا۔ صدمہ سیدوچارصحابہ کرام کو حوصلہ ملاجب صدیق اکبرنے خلافت کامنصب سنبھالاامت کی قیادت کاعزم کیا تو پھر کندھے پرچادررکھ کربازار کی طرف تشریف لے جانے لگے
‘صحابہ کرام نے پوچھا امیرا لمؤمنین کہاں کا ارادہ ہے توفرمایا تجارت کر نے تاکہ اپنے گھروالوں کاپیٹ پال سکوں۔ یہ سن کر سیدنافاروق اعظم نے یہ رائے پیش کہ امیرالمومنین کاوظیفہ بیت المال سے جاری کیاجائے
آپ نے اس شرط پر وظیفہ لیا کہ وظیفہ ایک مزدور کی اجرت کے برابر ہوصحابہ نے پوچھااگرآپ کاگزار انا ہوا تو فرمایا میں مزدورکی اجرت بڑھادوں گاایک مرتبہ زوجہ صدیق اکبر نے میٹھاکھانے کی فرمائش کی
توآپ نے فرمایا میرے پاس اتنے پیسے نہیں آپکی زوجہ محترمہ نے آپکی آمدن سے کچھ نا کچھ بچا کر تھوڑے دنوں بعدمیٹھاپکایاتوآپ کے پوچھنے پربتایامیں نے آپکی آمدن سے بچایا
آپ نے فوراً حکم نامہ جاری کیا کہ اتناوظیفہ میراکم کردیاجائے کیونکہ اتنامیری ضرورت سے زائدہے سیدنافاروق اعظم فرماتے ہیں مدینہ منورہ میں مجھے ایک نابینابڑھیا
کہ بارے میں پتہ چلاسوچااس کی خدمت کردوں جب وہاں پہنچاتوبڑھیانے کہاکوئی اللہ کابندہ روزانہ آتاہے میرے گھرکے سارے کام کر جاتا ہے
سیدنا فاروق اعظم نے جستجوکے بعدایک نقاب پوش کودیکھاجب نقاب ہٹایاتودیکھاکہ وہ توصدیق اکبر ہیں حاصل کلام غزوہ بدرہویاغزوہ احد،حنین کامیدان ہویاتبوک،خندق ہویافتح مکہ،صلح حدیبیہ ہویا بیعت رضوان،معراج کی تصد یق ہویاہجرت کاسفر،وفاداری کاموقع ہو یا جاں نثاری کا، وزیرنبوی ہوں
یامشیراعلی،خلافت ہویاصداقت،منکرین زکوٰۃ کیخلاف جہاد ہو یا جھوٹے دعوی نبوت کیخلاف میدان عمل،نبی کے سامنے مصلائے رسول پرکھڑے ہو کر نماز پڑھاناہویاصحابہ کو تحمل بردباری سے سمجھانا،خلافت ہویاسخاوت،شجاعت ہو یا استقامت ان سب میدانوں میں صدیق اکبر صف اول میں ہمیشہ ہی اول نظرآئیں گئے آپ کی زندگی کے خوبصورت خوب سیرت، قیمتی حسین ناقابل فراموش لمحات اورقابل دید دینی سیاسی وسماجی خدمات ایسی ہیں
جن پرآج بھی امت مسلمہ فخرکرتی نظرآتی ہے فتنہ ارتداداورمنکرین زکوٰۃ کونکیل ڈالنے والے مرد مجاہد،وارث مصلائے رسول،جانشیں پیغمبر،نبی کریم روف الرحیم ﷺکے ان جاں نثار،پہرہ دار،وفادار خدمت گارچمکتے دمکتے روشن ستارے نے22جمادی الثانی بمطابق13ہجری 23 اگست 634ء پیر اور منگل کی
درمیانی شب دارا لفناء سے دارالبقاء کی جانب63سال کی عمرمیں کوچ فرمایاآپکی وصیت کیمطابق آپ کے جسم مبارک کوروضہ رسول پرلاکراجازت چاہی گئی اجازت ملنے
پرآپ کو رسول اکرم شفیع اعظم ﷺ کے پہلومیں سلایاگیایوں یہ زندگی بھر ساتھ رہنے والے عظیم صحابی رسول وفادار،جاں نثار،پہر یدا رد نیاسے جانے کے بعدآج بھی اپنے محبوب نبی کی قبرمبارک کیساتھ آرام فرما ہیں۔