
اے مادر علم تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم رضا کا چاند ستارہ مہر علی کا ہے
مرکز ایمان کہا جائے یا مرکز اسلام‘مرکز عارفین کہا جائے یا مرکز عشق و محبت یہ تمام کلمات جس درس گاہ کے لیے مترادف ا ل معنی ہیں اس عظیم عمارت کو گلستان مہر علی جامعہ رضویہ ضیاء العلوم کہا جاتا ہے اللہ کریم کی عطا و مہربانی سرکار دو عالم ؐکی نگاہ پر لطف کے صدقے عشق رسول پر قائم ایک ایسی عمارت جس کی نظیر ملنا قریب از محال ہے جس کے نظم و ضبط کی مثالیں دور و نزدیک عوام خواص دیتے نظر آتے ہیں،
کسی منزل کی بنیاد اینٹوں پر ہوتی ہے،کسی کی بنیاد سیمنٹ بجری پر ہوتی ہے لیکن مادر علمی کو یہ شرف و سعادت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد عشقِ رسول پر رکھی گئی ہے سادات سلطان پور کی ان تک محنت‘شب و روز کی کوششیں بال آخر ایک رنگ دکھاتی ہیں کہ ان کا فیض بلا تعطل ہر جا پھیل جاتا ہے ایک ایسا مرکز علم جس سے لاکھوں لوگوں نے اکتساب فیض کیا اور بعد ازاں نور علم کو چار اطراف عالم میں تقسیم کیابرطانیہ کی اونچی عمارتیں ہوں یا جنوبی افریقہ کے جنگلات‘ہر جا جس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے اسی کو ضیاء العلوم کہا جاتا ہے
غازی ناموس رسالت ملک ممتاز حسین قادری صاحب کے عظیم کارنامے کے بعد آپ کی پشت پناہی کرنے والا عظیم ادارہ وہ وقت کہ جب ملک و ملت میں جمود کی فضا قائم تھی پھر یکا یک آواز حق بلند ہوتی ہے جس کو چشم فلک نے دیکھا اذن نے فلک نے واشگاف انداز میں سنا کہ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم کے مہتمم اساتذہ یا صرف طلبا ء عظام ہی نہیں بلکہ در و دیوار بھی پکار اٹھے ”غازی تیرے جاں نثار بیشمار بیشمار“وہ عظیم ادارہ جس نے ایسے علماء پیدا کیے جو نابغہ روزگار کہلائے اپنے فن کے ماہر ٹھہرے آئیے
ذرا ان نامور شخصیات کا تذکرہ کریں جو لب خاص و عام پر مشہور ہیں اول الذکرسیدی و سندی آقائی صاحب زادہ والا شان پیر سید حبیب الحق شاہ صاحب کاظمی سلطانپوری جنھوں نے مسئلہ ناموس رسالت پر ایسی نادر نایاب ا لنسل کتاب لکھی کہ یہ امت قیامت تک بھی شاید اس کا جواب نا لا سکے آپ کو غازی ملت ملک ممتاز قادری صاحب کا مقدمہ لڑنے کا شرف بھی حاصل ہے(زہے نصیب)ثانی الذکر وہ ہستی جو کسی تعارف کی محتاج نہیں میری مراد مناظر اسلام شمشیر اعلی حضرت مفتی محمد حنیف قریشی صاحب جو اہل سنت کے ہاں مخالفین کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتے ہیں
بدمذہب حضرات کا رد ہو یا مسئلہ قادیانیت‘ آپ ہر میدان میں ان کا رد کرتے نظر آتے ہیں آپ ہی کے مواعظ عشق و محبت سن کر غازی ملت کے جذبہ عشق رسول نے خم کھایا اور پھر جو ہوا وہ اظہر من الشمس ہے آپ نے بہت سی تصانیف لکھی ہیں لیکن وجہ شہرت آپ کی محبت اہل بیت ہے ثالث الذکر رہبر شریعت سید السادات فخر السادات پیر سید امتیاز شاہ صاحب کاظمی ہیں آپ کے انداز خطابت کا ایک زمانہ معترف ہے آپ کے بیانات سے اہل ایمان کے دل مچل جاتے ہیں آپ کو وہ سحر بیانی حاصل ہے
کہ بھری محفل میں وجد کا سماں باندھ سکتے ہیں آپ بری امام سرکار کی درگاہ کے خاص خادم تو ہیں ہی وہاں کی مرکزی مسجد کے خطیب بھی ہیں لیکن قارئین کرام یہ سارا فیض کہاں سے آیا؟ یہ وہیں سے آیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے مہر علی کا یہ گلستاں شاہ ضیاء الدین کی ضیاء اعلی حضرت کی نسبت سے جامعہ رضویہ ہے بنا کیا اس مرکز علم کو بغیر محنت شاقہ کے اس مقام پر لایا گیا نہیں۔! بلکہ سید شاہ حسین الدین ہیں جامعہ کا سرمایہ ان کے حسن عمل نے اس کو کیسا ہے چمکایا
اے دل ان کا ماتھا چوم
مرکز دین و فنون و علوم
جامعہ رضویہ موسوم ہے یہ بنام ضیاء العلوم اس مرکز سے از قیام و ان شاء اللہ تعالیٰ ازل احقاق حق کا اعلان ہوتا رہے گاباطل کا قلعہ قمع ہوتا رہے گا اور کیوں نا ہو کہ اس کی بنیاد کسی دنیا دار نے نہیں ”ابن حیدر کرار“ نے رکھی ہے اللہ کریم سے دعا گو ہوں اللہ کریم میرے مادر علمی کو تاقیامت سلامت رکھے باکرامت رکھے اور یوں ہی یہاں سے محبت رسول کی خوشبو بکھرتی رہے۔والسلام مع الاکرام