ثقافت کے رنگ

تحریر ساجد محمود
کسی بھی قوم کے رسم و رواج روایات اور تہذیب و تمدن اُس قوم کی ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ہماری دیہی ثقافت بھی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے پہلے دور میں پتھروں اور مٹی کی بنی دیواریں لکڑی کی چھت پر مشتمل مکانات فن تعمیر کا نادر نمونہ تھے لوگ آپس میں امن و آشتی سے مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کیساتھ ہمدردی اور غمگساری کے جذبات نمایاں تھے۔ بزرگوں کا بہت احترام اور لحاظ تھا۔ بزرگ گھر برادری گاؤں میں آپسی جھگڑے کے دوران ثالثی کا کردار ادا کرتے اور فریقین کو باہمی راضی نامہ پر مجبور کر دیا جاتا ۔ بڑوں کے رُعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ اُن کی گن گرج سے گھر اور جاندان کے افراد پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ خاندان کو جوڑے میں بزرگ مہارت رکھتے تھے۔ بزرگوں کے مُنہ سے نکلی ہوئی ہر بات حرف آخر تصور کیجاتی تھی۔ غیبت ایذا رسانی اور دل آزاری کا نام و نشان نہ تھا۔ البتہ ہمدردی پیار و محبت اور کشادہ دلی کے جذبات نمایاں تھے روزانہ کی بُنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری کرتے اگر گاؤں برادری میں کوئی بیمار ہو تو تیمارداری کیلئے فوراً پہنچ جاتے۔ چونکہ اُس وقت بجلی کی سہولت میسر نہ تھی اس لیے لالٹین کا استعمال عام تھا رات کی تاریکی میں نقل وحرکت کرتے وقت لالٹین کیساتھ بزرگ اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکتھے جس کا مقصد آوارہ کُتوں کے حملہ سے بچاؤ اور سانپ کا قلع قمع کرنا تھا مگر بعض اوقات گھریلو لڑائی جھگڑے میں کشیدہ صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے بزرگ لاٹھی چارج بھی کرتے تھے۔ جس کی بنا پر معمولات زندگی کو بحال کرنے میں کافی مدد ملتی تھی سردیوں کی سرد راتوں میں اہل خانہ کو ئلے کی انگیٹی گرم کرتے اور سب سردی کی شدت کو کم کرنے کی غرض سے انگیٹی کے ارد گرد پڑاؤ ڈال لیتے ۔ سبز چائے کا قہوہ اور گُڑ کے ساتھ مونگ پھلی کا استعمال خوشگوار لمحات کے لطف کو دوبالا کر دیتا تھا۔ رات کو دادی اماں جن بھوت چڑیل اور راجہ رانی کی کہانیاں سُنایا کرتی تھیں جن کو سُن کر ڈر اور خوف محسوس ہوتا تھا۔ جلدی سونا اور جلدی اُٹھنا معمولات زندگی میں شامل تھا۔ چونکہ آبادی کا زیادہ دارو مدار زراعت پر تھا اس لیے کسان صبح سویرے کندھوں پر ہل اُٹھائے اور بیل لیے کھیتوں کی طرف نکل تھے۔ کسان کی بیوی صبح سویرے سر پر پانی کا مٹکا اُٹھائے ہاتھا میں چائے پڑاٹھا لیے کھیتوں میں پہنچ جاتی تھی۔ دونوں میاں بیوی اگٹھے ناشتہ کرتے تھے ۔ پیار و محبت اور و فا شعاری کے حسین مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔خوراک انتہائی سادہ تھی۔ مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ پسندیدہ خوراک تھی۔ اس کے علاوہ دیسی گھی،دودھ مکھن، لسی کا استعمال عام تھا۔ خالص خوراک کھانے محنت و مشقت اور پیدل چلنے کی بنا پر لوگ تندریست و توانا تھے۔ شوگر ،بلڈ پریشر،اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریاں پاس پھٹکنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ اور یہ عمل درازی عمر کا راز تھے فصل کی کٹائی کے موقعہ پر حلوہ کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ سردی میں بارشکی جھٹری کے دوران بھی حلوہ کی تیاری پر گھر کی روایات میں شامل تھا۔
شادی بیاہ کے موقعہ پر رسومات کی ادائیگی ہماری ثقافت کا حصہ تھیں اس موقعہ پر ڈھول کی تھاپ پر لُڈی ۔ سمی۔ بھنگڑاکا رواج عام تھا کبھی کبھی سانگ کی محفلیں بھی منعقد کیجاتی تھیں جس پر ادکار براہ راست اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور داد وصول کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مہندی کی رسومات کی ادائیگی کے موقعہ پر مٹھائی پتا سے رس باقر خانیوں کی سوغات کا تبادلہ کیا جاتا تھا۔ اور عورتیں مہندی کے موقعہ پر شادی کے مخصوص گانے گایا کرتی تھیں۔ مگر موجودہ دور میں یہ سرگرمیاں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ کبڈی ، بیل، دوڑ کے مقابلے اور وزنی پتھر اُٹھانے کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے۔ اور عموماً اس قسم کی سرگرمیاں اُولیاء اکرام کے سالانہ عُرس کے موقعہ پر دیکھنے کو ملتی تھیں اور موجودہ دور میں بھی اس قسم کی سرگرمیوں کا رواج موجود ہے جو ہمیں اپنی ثقافت کی یاد دلاتی ہیں۔ گاؤں کے لو گ جس طرح خوشی کی رسومات میں شرکت کرتے تھے۔ اُسی طرح غمی کے موقعہ پر بھی اجماعیت کا عنصر نمایاں تھا۔ جس گھر میں فوتگی ہو جاتی اُس گھر کا کام کاج سنبھال لیتے اور اُس گھر میں چالیس دن تک چُولہا نہیں جلانے دیتے۔ کھانے پینے کا بندوبست گاؤں کے لوگ اپنے ذمہ لے لیتے ۔ گاؤں کے لوگ صوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ ارکان اسلام کی بجا آوری مقصد حیات تھا۔ اور صبح صادق فجر کی نماز کے بعد شہر خوشیاں میں اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پردُعائے مغفرت کیلئے جانا روزانہ کا معمول تھا۔ مگر نئی نسل ان اُوصاف سے عاری ہے۔ ثقافتی ورثہ کسی بھی قوم کا نایاب اثاثہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کیلئے ثقافتی سرگرمیوں کو بحال کریں تاکہ اپنی تاریخی روایات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم نوجوان نسل کو ثقافتی سرگرمیوں کیطرف راغب کریں۔ سوشل میڈیا کی ایجاد سے جہاں دُنیا سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ وہاں نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات بھی پڑے ہیں۔ اس لیے موجودہ دور میں ثقافتی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں سے بچا کر اپنے ثقافتی ورثہ کو روشناس کرایا جا سکے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں