ثقافتی پروگرام پر گوجرخان پولیس کی یلغار

عبدالستارنیازی/گوجرخان میں تین چار دن سے تیتروں کی سیاست زوروں پر ہے ، ٹورنامنٹ کرانے والے آرگنائزرز نے کرونا وائرس کی وجہ سے بند شادی ہال کو کھلوا کر ٹورنامنٹ منعقد کرایا اور اس کو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا جس پہ پولیس کو ذرا رحم نہ آیا اور جو ہونا تھا سوہوا مگر جگ ہنسائی بہت ہوئی،مقامی ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کا اس ٹورنامنٹ میں کردار صرف مہمان خصوصی تک رہتا تو الگ بات تھی،پولیس کے پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی دبنگ انٹری دے کر،تیتر اور بندے چھڑوا کر ساری تنقید اپنے سر لے لی، سوشل میڈیا کی پوسٹس سے پریشان ہونے والے ایم پی اے کو اپوزیشن رہنماﺅں اور ان کے چست و چالاک ورکرز نے خوب آڑے ہاتھوں لیا، کاش کہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہال میں جانے کی بجائے تھانے یا ایس ڈی پی او کے دفتر پہنچ جاتے تو حالات بہت مختلف ہوتے، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کی زبانی ہال میں نفری سمیت موجود ایس ایچ او محمد عمران عباس کو معلوم ہواکہ اسسٹنٹ کمشنر نے اجازت دے رکھی ہے جبکہ ایم پی اے کا گزشتہ روز بیان سامنے آیا کہ ڈپٹی کمشنر کو بھی اس ٹورنامنٹ کی اطلاع تھی، حیرت کی بات یہ کہ ضلع کے انچارج یعنی ڈپٹی کمشنر کو ٹورنامنٹ کی اطلاع تھی مگر مقامی ڈی ایس پی اور ایس ایچ او اس ٹورنامنٹ سے لاعلم تھے، بات ہال کے اندر ہی رہتی مگر چونکہ سوشل میڈیا اور جدید ترین موبائلز کا دور ہے اس لئے ویڈیوز ہال سے باہر آگئیں اور وہاں موجود لوگوں نے ویڈیوز بناکر شیئر کر دیں ، یہ تو شکرہے وہاں میڈیا موجود نہیں تھا ورنہ پوری رپورٹ دنیا تک پہنچ جاتی کہ وہاں کیا کچھ ہوا اور کیا کچھ باتیں ایم پی اے نے ایس ایچ او کے ساتھ کیںاوروہاں موجود لوگوں نے کس کس کو بُرا بھلا کہا،سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی جس میں پولیس کو تشدد کرتے دیکھا گیا میرے خیال میں پولیس کو قطعاً یہ توقع نہیں تھی کہ ان کی موجودگی میں ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر دبنگ انٹری دیں گے اور سارا کام چوپٹ ہو جائے گا،اسسٹنٹ کمشنر کی مداخلت پر سارے تیتر پنجروں سمیت مالکان کے حوالے کر دیئے گئے مگر اس کے بعد ایک اور شور پڑ گیا کہ کچھ لوگوں کے تیتر بھی وہاں سے چوری ہوئے وہ کس نے چوری کئے؟ یہ الگ بحث چل رہی ہے،پولیس نے ہال کے اندر جس طرح انٹری دی اس سے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا اور سی سی ٹی وی فوٹیج نے تبدیلی سرکار کے زیراثر پنجاب پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دیئے کہ پولیس اس طرح لوگوں کیساتھ سلوک کررہی تھی جیسے وہ دہشت گرد تھے یا چور اُچکے ہال میں موجود تھے پولیس کا یہ کردار انتہائی قابل مذمت و قابل گرفت ہے، ساری کاروائی کے بعد ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر سیخ پا ہوئے ڈی ایس پی دفتر پہنچ گئے جہاں پر ایس ڈی پی او گوجرخان ذوالفقار علی خان سے بات کی تو وہ بھی اس ٹورنامنٹ کے انعقاد کے حوالے سے لاعلم نکلے ، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کی زبانی چونکہ اسسٹنٹ کمشنر نے اس کی اجازت دی تھی تو ان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یعنی پنجاب پولیس کو بھی آگاہ کرتیں یا اعتماد میں لیتیں مگر انہوں نے شاید ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا اور یہ واقعہ پیش آیا ، اگلے روز ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پہنچ گئے جہاں پر طویل نشست ہوئی اور بات چیت ہوئی، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں ٹورنامنٹ کے آرگنائزرز ، ایم پی اے اور اسسٹنٹ کمشنر کی غلطی بنتی ہے اس لئے معاملے کو اچھالنے کی بجائے دبا دینے کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ پولیس نے جو ایکشن لیا وہ بمطابق قانون تھا ، کسی شادی ہال میں کوئی بھی نجی تقریب کرنے پر بھی پابندی ہے چہ جائیکہ آپ تیتروں کے ٹورنامنٹ کراتے پھریں اور پھر زبانی اجازت کی کیا قانونی حیثیت ہوتی ہے کہ آپ قانون کیساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ٹورنامنٹ منعقد کریں، جہاں یہ کارروائی ہوئی اور ٹورنامنٹ منعقد ہوا وہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کا آبائی علاقہ ہے اور چوہدری جاوید کوثر نے ساری زندگی یہیں گزاری ہے اس لیے انہیں یہ بات سخت ناگوار گزری کہ پولیس نے ان کے آبائی علاقے میں آکر اس طرح کی کاروائی کیوں کی، ایم پی اے ایک شریف النفس آدمی ہیں اور انہوں نے بروقت ایکشن لیتے ہوئے صرف یہ سوچا ہوگا کہ یہ معاملہ یہیں ختم ہو جائے گا مگر میرے خیال کے مطابق انہیں فون پر پولیس کی جانب سے چھاپے کی اطلاع موصول ہونے پر وہاں نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ اگر وہ یہی انٹری تھانے میں یا DSPدفتر میں دیتے تو ان کی ساکھ اتنی متاثر نہ ہوتی ، ایم پی اے نے اپنے ووٹرز سپورٹرز کی توہین برداشت نہیں کی اور یہ فطری عمل تھا لیکن ان کا یہ عمل سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں انہیں بہت سارا نقصان دے گیا ، پولیس کارروائی کی بات کریں تو پولیس نے اطلاع پر جو ایکشن لیا وہ بمطابق آئین و قانون تھا کیونکہ اس سے قبل پولیس متعدد جگہوں پر ایسی کارروائیاں کرچکی ہے اور ابھی تک شادی ہالوں میں تمام تقاریب پر پابندی ہے اس لئے پولیس کو مورد الزام ٹھہرانا کسی صورت درست نہیں البتہ جس طرح لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک پولیس اہلکار کی جانب سے اسلحہ تاننے کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، اورسی پی او راولپنڈی نے اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد متعلقہ اے ایس آئی کو معطل بھی کر دیا ہے، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کو اپنے منصب کا خیال کرنا ہوگا اور اپنے آگے پیچھے پھرنے والوں سے مشورے لینے کی بجائے خود اپنی سیاست اور عوامی خدمت کا رُخ متعین کرنا ہوگا ، بصورت دیگر معذرت کیساتھ وہ گلیوں ، نالیوں ، سڑکوں اور تیتر بٹیر ٹورنامنٹس تک ہی محدود رہیں گے اور عوامی خدمت میں چمچے کڑچھے انہیں کوئی تاریخی کام نہیں کرنے دیں گے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں