ثقافتی ورثہ کا تحفظ

ساجد محمود
ثقافت اخلاقی و معاشرتی رسم و رواج ،روایاب تاریخ اور خیالات کے مجموعہ کا نام ہے ہر معاشرے میں ثقافت کو اتحاد اور یگانگت کی علامت تصور کیا جاتا ہے ہمارا دیہی معاشرہ بھی اپنی منفرد ثقافتی اقدار کا حامل ہے ماضی میں ثقافتی سرگرمیاں عروج پر تھیں مگر موجودہ دور میں ان ثقافتی سرگرمیوں میں کمی دیکھنے کو ملتی ہے اسکی بڑی وجہ الیکٹرونکس میڈیا کا فروغ ہے موبائل فون،وٹس ایپ، فیس بک کی ایجاد نے ثقافتی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے گو انسان مادی ترقی کی راہ پر گامزن ہے مگر ان ایجادات سے نوجوان نسل اخلاقی پستی کا شکار ہوتی ہے مگر ان حالات کے باوجود دیہاتی معاشرے کے اندر ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں ثقافتی ورثہ کے تحفظ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے اس قسم کی سرگرمیاں عموما اولیا اکرام کے سالانہ عرس کے موقعہ پر دیکھنے کو ملتی ہیں ایسے موقعوں پر بیل دوڑ کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے

جس میں علاقے اور اردگر د سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں اور جیتنے والے بیل مالکان کو نقد انعام دئیے جاتے ہیں اسکے علاوہ کبڈی کے میچیز کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں یہ سرگرمیاں ثقافتی روایات کو برقرار رکھنے کے ذریعہ بنتی ہیں وہاں علاقے کے لوگوں کو ایک دوسرے کیساتھ میل ملاقات کے مواقع میسر آتے ہیں ایسی سرگرمیاں بابا غلام فرید نوتھیہ شریف ،سائیں مسکین اور بابا شہید موہڑہ کھوہ کے عرس مبارک کے موقعہ پر دیکھنے کو ملتی ہیں اسکے علاوہ بابا فضل شاہ کلیامی کلیام اعوان کے عرس کے موقعہ پر اونٹ کے وزن اٹھانے کے مقابلے منقعد کیے جاتے ہیں سنگھوری میں بھی عرس کے موقعہ پر قوالی کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے ان کے شادی کے موقعہ پر بھی ثقافتی روایات کا تاثر ملتا ہے اہل محلہ اور رشتہ دار،دوست احباب لڑکا ،لڑکی کے گھر میں شادی کی رسومات میں شرکت کرتے ہیں جلیبی اور مٹھائی کی ٹوکریاں لے جائی جاتی ہیں

اس موقعہ پر مہمانوں کی کھانے ،مٹھائی جلیبی اور چائے سے خاطر تواضع کی جاتی ہے جس سے اپنائیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے اب تو شادی کے موقعہ پر بارات کے کھانے کا بندوبست پکوان سنٹر کے ذمہ لگا دیا گیا ہے لیکن ماضی میں اس قسم کے انتظامات بڑوں کی نگرانی میں گھر پر ہی سرانجام دیئے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ گندم کی کٹائی کے موقعہ پر گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے خاص کر گندم کی گوائی کے وقت اجتمائیت کے جذبات دیکھنے کو ملتے تھے ۔اور گوائی کے اختتام پر مہمانو ں کو تواضع حلوے اور مسور کی دال سے کیجاتی تھی مگر اب یہ تمام کام جدید مشنیری کے ذریعے انجام پاتے ہیں ہمار ی دیہاتی ثقافت میں بڑوں بزرگوں کا بہت احترام اور لحاظ کا تاثر ملتا ہے گھریلو معاملات کی انجام دہی ہو یا اجتماعی مسائل کا حل بزرگ حضرات کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا جاتا تھا مگر آج نوجوان نسل ان اوصاف سے عاری ہے غمی کے موقعہ پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کے جذبات نمایاں نظر آتے تھے مگر اب ان رویوں میں بھی کمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔آج ہم سب ان تمام روایات ،اخلاقیات اور رسومات کو بھول چکے ہیں

جو ہمارے بزرگوں نے اپنا رکھی تھیں جسکی بنا پر ہمارے دیہات میں ایک دوسرے کے درمیان ہمدردی،رواداری اور غمگساری کے جذبا نمایاں نظر آتے تھے مگر آج ہم ان معاملات سے عاری ہیں جس کی بنا پر خاندان ،برادری کے اندر بے چینی اور افراتفری کا عالم ہے نوجوان اپنے ثقافتی ورثہ سے لاعلم ہے ہم سب کو مل کر اپنے ثقافتی ورثہ کے تحفظ اور ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کے ذہن میں اپنی ثقافت کے تحفظ کا احساس اجاگر کیا جائے تاکہ انکی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں