عاطف جبار کیانی/موجودہ دور میں اگر بین الاقوامی حالات واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو عالم اسلام مشکل دور سے گزر رہا ہے چند ایک اسلامی ممالک کو چھوڑ کر مسلمان ہر جگہ پر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر عالم اسلام کے کئی رہنما اس جانب غوروفکر کرنے سے مرحوم ہیں مسلم ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے خصوصاً مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اسلامی روایات سے دور رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے مسلم ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کر کے معاشی اور معاشرتی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے معاشی طور پر تو کئی مسلم ممالک پہلے ہی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے مگر اب معاشرتی طور پر بھی کمزور کیا جا رہا ہے اس میں عالمی سطح پر اسلام مخالف قوتوں کا ہاتھ ہے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اندرونی طور پر اتنا کمزور کر دیا جائے تاکہ ان کا معاشرتی نظام بھی درہم برہم ہو جائے یہی حال آج کل ہمارے معاشرے کا ہے فرقہ ورانہ ذہنیت کا پرچار سرا سر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے مگر اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی اسلامی ممالک نے بھی اپنی روایات،زبان اور لباس سے لے کر تمدن اور ثقافت تک سب کچھ غیروں سے مانگ رکھا ہے ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے جو روایات چھوڑی تھیں مسلمان اسے سنبھال نہیں سکے ایک وقت تھا مسلمان اپنے کردار اور عمل سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے مگر پھر اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں گر گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کے امین بن کر اس کا پوری طرح تحفظ کرتے لیکن ایسا نہ ہوا اسی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں ایک محاذ قائم کر دیا گیا مسلمان پریشان ہو کر کبھی ایک نظام کی طرف دیکھتے ہیں کبھی دوسرے نظام کی طرف بعض اوقات مغربی تہذیب کے گن گانے لگتے ہیں اور کبھی مشرقی روایات کی پاسداری انہیں مغرب کی تبلیغ کرنے سے روکتی ہے مسلمانوں کے بعض طبقات انگریزوں سے توقع رکھتے ہیں اور بعض ہندوؤں سے اچھائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں اپنے مذہب اور شاندار تہذیب و تمدن اور رویوں کے باعث دنیا میں مقام حاصل کرنے والی قوم جب اپنے ماضی سے کٹ گئی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو بنیادی اختلافات کا رنگ دے دیا تو زوال شروع ہوا آئندہ بھی مسلمانوں کو جو مشکلات پیش آنے والی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اپنے اختلافات کو ختم کر کے متحد ہونے کی ضرورت ہے تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جب بھی توحید کے پرچم تلے صف آرا ء ہوئے باطل کی ساری قوتیں ان کے سارے منصوبے اور سارا غرور خاک میں ملا دیا آج پھر اسی تاریخ کو دہرانے کا وقت ہے بے خبری نادانی اور کم عقلی پر رنجیدہ ہونے کی بجائے اپنے آپ کو اسلام کے دائمی اصولوں پر کاربند ہونا ضروری ہے دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو تین براعظموں پر حکومت کرنے والی قوم اپنے ہی گھروں میں غلام بن چکے ہیں علمی اور ثقافتی مراکز تباہ ہو گئے ہیں مگر کچھ نہ کر سکے۔ آپس کے اختلافات کی وجہ سے غیر مسلموں کی ہمدردی اور امداد کے منتظر ہیں مسلم ممالک جب تک اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کریں گے تب تک مشکلات سے دوچار رہیں گے خصوصاً عرب ممالک کو بھی اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے مفادات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اگر مسلم ممالک مل کر معاشی پالیسیاں ترتیب دیں تو بہت سے ترقی پذیر مسلم ممالک اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں مسلم ممالک کے رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ امریکہ اور مغربی ممالک اگر ان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں تو اس سے ان کے اپنے مفادات بھی وابستہ ہیں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تب ہی مسلمانوں کے مسائل کم ہوں گے۔
352