تھانہ گوجرخان کھڑپینچوں‘سیاستدانوں کا ڈیرہ بن گیا

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر میری ایک پوسٹ پر دوست نے کمنٹ کیا کہ اب ہمیں ہروقت اسلحہ ساتھ رکھنا پڑے گا، میں نے جواباً لکھا کہ مجھے بھی کوئی اچھی سی رائفل لے دیں تو کہنے لگے آپ لائسنس بنوائیں، رائفل آپ کو پہنچ جائے گی، اس لمحے اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس طرح چوری، ڈکیتی، راہزنی، نقب زنی کی وارداتیں گوجرخان و گردونواح میں عروج پر ہیں اس میں وکیل، صحافی، تاجر بھی محفوظ نہیں رہے تو اب مجھے بھی اپنی حفاظت کیلئے کچھ کرنا ہوگا۔ اللہ حامی و ناصر ہے۔
گوجرخان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر ضلعی و ریجنل پولیس افسران لمبی تان کر سو چکے ہیں، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، گوجرخان میں تعینات ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور ان کا عملہ جی ٹی روڈ پر گشت کرتا نظر آتاہے مگر چوروں، ڈکیتوں کو پکڑنے میں ناکام ہے، گزشتہ دو ماہ کے دوران چوری، ڈکیتی کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں، جن میں موٹرسائیکل، گاڑیاں، زیورات، نقدی سے لوگوں کو محروم کیا گیا، پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا اور اس سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے کے قریب رقم اور زیورات برآمد کئے، مگر کسی منظم گینگ کو گرفتار کرنے میں پولیس ناکام ہے۔
شہید انسپکٹر ایس ایچ او میاں محمد عمران عباس کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کا دل کرتاہے وہ اس لئے بھی کہ وہ زندہ دل شخص شہادت کے رُتبے پر فائز ہو گیا اور مزید اس لیے بھی کہ اس مرد مجاہد نے اپنی گوجرخان تعیناتی کے دوران کوئی ایسی ڈکیتی، چوری کی واردات نہیں چھوڑی جس کو اس نے ٹریس نہ کیا ہو، کچھ دنوں کی تاخیر ضرور ہوتی رہی مگر اس نے بالآخر ملزمان کو گرفتار کر ہی لیا تھا، اب وہ شخص اس دنیا میں نہیں رہا تو اس سے ہونے والی اچھی باتیں شیئر کرنا میں معیوب نہیں سمجھتا، جب بھی کوئی چوری یا ڈکیتی کی واردات ہوتی اور میرا ان سے رابطہ ہوتا تو میاں عمران کی زبان پر یہی الفاظ ہوتے ”نیازی یار کچھ دن صبر کر۔ واردات ٹریس نہ ہوئی تو پھر تم جو مرضی میرے خلاف لکھ دینا“۔ اس شخص کو اپنی قابلیت اور اپنی ٹیم کی قابلیت پر اتنا بھروسہ تھا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد و نصرت کرتا تھا، وہ جس مشن پر نکلتا تھا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے بغیر واپس نہیں آتا تھا،چند ماہ قبل تھانہ چونترہ میں ایک ہی گھر کے 5/6افراد قتل ہوئے تھے اس کے قاتل بھی ایس پی صدر کی نگرانی میں سابق ڈی ایس پی گوجرخان ذوالفقار علی اور سابق ایس ایچ او میاں عمران عباس نے ٹریس کر کے گرفتار کئے تھے، ایسی بیشمار وارداتیں جو کئی قابل افسران سے ٹریس نہیں ہو تی تھیں وہ میاں عمران عباس کے کھاتے میں ڈال دی جاتی تھیں اور میاں عمران عباس اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے ٹریس کر کے افسران کے حوالے کرتا تھا۔
میاں عمران عباس کے گوجرخان سے تبادلے کے بعد خضر حیات نے ایس ایچ او کا چارج سنبھالا، ان کی ٹرانسفر کے بعد ظہیر بٹ نے چارج لیا، ان کی ٹرانسفر کے بعد اب مرزا شکیل احمد ایس ایچ او گوجرخان تعینات ہیں، ان تینوں افسران کی تعیناتی کے دوران گوجرخان تھانہ کی حدود میں چوروں، ڈکیتوں کو لگام نہیں ڈالی جا سکی، تھانہ گوجرخان بالخصوص اور پورے سرکل میں بالعموم پولیس امن و امان قائم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے، ایسے لگتاہے جیسے پولیس تھانہ گوجرخان مقامی نام نہاد کھڑپینچوں اور گلی محلے کے سیاستدانوں کا ڈیرہ بن چکا ہے، سائلین مقدمات کے اندراج کیلئے ذلیل و خوار ہونے لگے ہیں، تفتیشی افسران نے مبینہ طور پر درخواستوں کے
ریٹ مقرر کر لئے ہیں، تھانہ گوجرخان کے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں مسلسل اضافے سے شہریوں میں خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، صحافی، وکلاء، تاجر اور عام آدمی بھی ڈکیتوں کے رحم و کرم پر ہیں، دو تین صحافیوں سے ڈکیتوں نے اسلحہ کی نوک پر موبائل فون چھین لئے، ایک وکیل سے 38ہزار روپے ڈی ایس پی آفس کے پاس چھین لئے، نگائل روڈ پر ناکہ لگا کر لوٹ مار ہوتی رہی، گزشتہ روز صبح 5بجے ذبحہ خانہ کے قریب دُلمی پُل پر ڈاکوؤں نے ایک گاڑی کے نہ رُکنے پر فائرنگ کی، دو موٹرسائیکل سواروں کو لوٹ لیا، مزاحمت پر ایک شخص کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا، نگائل روڈ پر رکشہ ڈرائیور کو فائرنگ کر کے زخمی کیا، نااہل منتخب نمائندوں کی بے حسی کی وجہ سے گوجرخان سرکل کراچی کا لیاری بنا ہواہے، آئی جی پنجاب اور سٹی پولیس آفیسر راولپنڈی کی سخت ہدایات کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں پولیس بری طرح ناکام ہے، دوسری جانب پولیس کو درپیش مسائل کی بات کی جائے تو پولیس کے پاس دو گاڑیاں ہیں، ایک وی آئی پی موومنٹ پر مقرر ہوتی ہے تو دوسری کسی جگہ ریڈ کرنے، ملزمان گرفتار کرنے، کسی واقعہ کے رونما ہونے پر پہنچتی ہے، ایک وقت میں اگر دو یا تین واقعات ہو جائیں تو پولیس کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں، نفری کی کمی ہے، تھانہ گوجرخان کے پاس بہت بڑا ایریا ہے، شرقی گوجرخان میں تھانے کے قیام کیلئے آج تک سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جو موجودہ اور سابقہ نمائندوں کی سراسر نااہلی ہے، پولیس کو مطلوبہ وسائل ہی دستیاب نہیں،اس ساری صورتحال میں بالآخر ذمہ داری عوام پر ہی آتی ہے کہ عوام اپنا تحفظ خود کرے کیونکہ نہ تو مقامی منتخب نمائندے، نہ انتظامیہ اور نہ ہی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ان معاملات کو سنجیدہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں