توکل

پروفیسر محمد حسین/توکل کے معنی ہیں سونپ دینا سپرد کرنا کسی کے بھروسے پر کام چھوڑ دینا توکل کے شرعی معنی اللہ تعالیٰ کو کار فرما،کارساز اور موثر سمجھتے ہوئے دل سے یقین کرناکہ اپنے تمام مقاصد اور کاموں میں ذات باری تعالیٰ ہی قابل اعتماد و بھروسہ ہے لہذا مومن کو چاہیے کہ اللہ سے لو لگا کے اس کی قدرت حکمت او ر اسی کے کرم پر نظر رکھے اسی سے امیدیں وابستہ رکھے اسی کا خوف کرے اسی سے دعا کرے اسی پر کامل اعتماد بھروسہ اور یقین ہی کا نام دین میں توکل ہے اس جہاں میں جو کچھ ہوتا ہے اور جس کو جو کچھ ملتا ہے یا نہیں ملتا سب براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے اور ظاہری اسباب کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ان چیزوں کو ہم تک پہنچانے کے لیے اللہ کے مقرر کیے ہوئے صرف ذریعے اور راستے ہیں اس عالم وجود میں کارفرمائی اسباب کی بالکل نہیں بلکہ مسبب کار فرما صرف ذات بار تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ ہی ہمارے تمام امور کا وکیل اور ہماری بھلائی و بہتری کا ضامن ہے عام لوگ توکل کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کا م کے لیے جدوجہد اور کوشش نہ کی جائے بلکہ چپ چاپ ہاتھوں ُ پاو¿ں توڑے کسی حجرے یا خانقاہ میں بیٹھ رہا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اللہ کو جو کچھ کرنا ہے وہ خود ہی کر دے گا یعنی تقدیر میں جو کچھ ہے وہ ہو کر رہے گا اسباب و تدبیر کی سرے سے ضرورت نہیں لیکن یہ سراسر توکل کا غلط تصور ہے اور مذہبی اپاہجوں کا دلی خوش کن فلسفہ ہے جس کا اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں جھوٹے صوفیوں نے ترک عمل ‘ ترک اسباب و تدابیر سے بے پرواہی اور خود کوئی کام نہ کر کے دوسروں کے سہارے جینے کا نام توکل رکھا ہے حالانکہ توکل نام ہے کسی کا کو پورے ارادے و عزم اور تدبیر و کوشش کے ساتھ انجام دینے اور یقین رکھنے کا کہ اگر اس کام میں بھلائی ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں ضرور فتح یاب اور کامیاب فرمائے گا علاوہ ازیں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ اس جہاں میں اسباب و وسائل حق تعالیٰ نے انسانوں ہی کے لیے پیدا کیے ہیں ان کو ترک کر دینا گویا ان چیزوں کو معطل و بیکار بنا دینا ہے جو منشا ءخداوندی کے منافی ہے فقہاءنے کہا ہے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا اور اپنی ذات کے لیے چالیس روز کا بقدر ضرورت غذائی ضروریات کا سامان اکٹھا بھروا کر رکھ لینا توکل کے منافی نہیں ہے اگر تدبیر جدوجہد اور کوشش کا ترک کر دینا ہی توکل ہوتا تو دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو مبعوث نہ کرتا اور نہ ہی تبلیغ و رسالت کے لیے جدوجہد اور سعی و سرگرمی کی تاکید فرماتا اورنہ ہی اس راہ میں جان و مال کی قربانی کا حکم دیتا ‘ نہ ہی طائف میں سرور کائنات لہو لہان ہوتے ،نہ بد و حنین میں سواروں تیر اندازوں زرہ پوشوں اور تیغ آزماو¿ں کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی رسول اللہ کو ایک ایک قبیلہ کے پاس جا کر حق کی دعوت کا پیغام سنانے کی حاجت ہوتی مسلمانوں کی کامیابی کااہم راز ہی توکل علی اللہ ہے حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر دین کے کام یا لڑائی میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے توا للہ پر بھروسہ کر و بے شک اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں اگر اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہے پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہییے (آل عمران ) نبی کریم نے فرمایا کہ اہل االرائے حضرات سے مشاورت پھر اس کی اتباع کا نام عزم ہے (ابن کثیر)اور عزم صمیم کے بعد کام پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ کرنا شروع کردو اور اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھو کہ وہ تمہارے کام کا حسب خواہ نتیجہ پیدا کرے گا تاہم اگرنتیجہ مرضی کے مطابق نہ نکلے تو اس کو اللہ کی حکمت مصلحت اور مشیت سمجھو اور اس سے بد دل ،مایوس نہ ہو اور اگر نتیجہ خاطر خواہ نکلے تو یہ غرور نہ ہو کہ یہ تمہاری تدبیر اور جدوجہد کا نتیجہ اور اثر ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و کرم ہوا اور اسی نے تم کو کامیاب اور بامرا دکیا ۔رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام پیٹ بھر کر اپنے گھونسلوں میں واپس آتے ہیں (ترمذی) یعنی دنیا کسی چیز کی کامیابی کے لیے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں انھیں استعمال تو ضرور کیا جائے لیکن کامیابی کے لیے ان اسباب پر اعتماد نہ کیا جائے بلکہ اعتماد اللہ کی نصرت و حمایت پر کیا جائے یہی توکل کا حق ادا کرنا ہے توکل کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرح کے حالات میں اللہ تعالیٰ کی دکھائی ہوئی راہ ثابت قدم رہے اس سے بلکل انحراف نہ کرے اور مشکل حالات کو بدلنے کی ہر جائز تدبیر اختیار کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اپنے ذرائع و و سائل اپنی قوت و صلاحیت اور طاقت و قابلیت پر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی تائید و توفیق پر ہو تو کل کی یہ حقیقت جن لوگوں کے عقیدہ و عمل میں سرایت کر جاتی ہے وہ کبھی بے حوصلہ او ر مایوس نہیں ہوتے اور انھیں اس کابہت بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ غیر اللہ سے بے خوف ہو جاتے ہیں حدیث بھروسہ کرے بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں