توشہ خانہ کے حمام میں

انسان فطرتاً لالچی پیدا ہوا ہے اس کی طبیعت میں لالچ فطری طور پر رکھی گئی ہے جب انسان کو کوئی ایک چیز مل جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرنے لگتا ہے اور دوسری مل جائے تو تیسری کی خواہش کرنے لگتا ہے اس طرح انسان کی یہ لالچ بڑھتی رہتی ہے۔ انسان خواہشات کو پورا کرنے کی جتنی کوشش کرتا ہے اتنی ہی خواہشات بڑھتی رہتی ہیں اور اتنا ہی زیادہ کہ لالچ کے اندر دھنستا رہتا ہے اور ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے لالچ میں اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ پھر وہ جائز نا جائز اور حلال و حرام کی تمیز بھول جاتا ہے پھر ہر حرام چیز کو گھسیٹتا رہتا ہے۔ چاہے اس کے پاس دولت کے انبار بھی لگ جائیں لیکن اس کی آنکھیں بھوکی رہتی ہیں ہمیشہ اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح سے وہ مزید کچھ وصول کرلے۔ یہاں پر مجھے ایک حدیث یاد آ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان کو ایک وادی سونے کی مل جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرنے لگتا ہے انسان کے پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ یہ خواہشات تو انسان کے اندر فطری طور پر ہیں لیکن ان پر قابو پانا چاہیے، کوئی شخص اگر ذی شعور اور عقل سلیم کا مالک ہو تو وہ اپنی خواہشات کی اندھا دھند تکمیل کی بجائے ان پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب انسان ایک بار کوشش کرے تو اس کی خواہشات بڑھنے کی بجائے کم ہو جاتی ہیں لیکن کوئی کوشش تو کر کے دیکھے۔


پاکستان میں توشہ خانہ کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں یہ بھی انسان کی خواہشات کی اندھا دھند تکمیل کی بدترین مثال ہے۔ توشہ خانہ سے تحائف چرانے کی تفصیلات کو دیکھ کر عوام حیرت زدہ رہ گئے کہ ہمارے سیاستدانوں کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ ان کے پاس دولت ہے، پیسہ ہے، زندگی کی تمام تر سہولیات ان کے پاس موجود ہیں اس کے باوجود انہوں نے توشہ خانہ میں سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی نہیں چھوڑا اور انہیں بھی اٹھا کر اپنے گھروں کو لے گئے۔ شریف خاندان کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ ان کے پاس گاڑیوں کی کمی ہے پاکستان میں ان کے پاس علیحدہ گاڑیاں ہیں لندن میں ان کے پاس علیحدہ گاڑیاں ہیں کسی بھی ملک میں چلے جائیں وہاں پر ان کے لئے گاڑی لینا کوئی مشکل کام تو نہیں ہے ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ شاید انہیں خود بھی اندازہ نہ ہو کہ ان کے اثاثے کتنے ہیں۔


جب کلثوم نواز مرحومہ بیمار تھیں تو کسی نے درست کہا تھا کہ شریف خاندان کے ہاتھ میں شفا نہیں ہے ورنہ انہیں معلوم ہو کہ چاند پر بھی ان کا علاج ہو سکتا ہے تو ان کے لیے چاند پر لے جانا بھی کوئی مشکل نہیں یعنی ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ یہ ہر طرح کی اپنی خواہش اور ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ صرف خواہش اور ضرورت ہی نہیں بلکہ عیش پرستی میں بھی یہ ہر طرح کے کام کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود توشہ خانہ سے گاڑیاں سستے داموں لینا، ہار اور گھڑیاں لینا۔ یہ چیزکس طرح طبیعت کو گوارا ہوئی کہ ہم یہاں سے اتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی چرا لیں لیکن جب انسان کے ذہن میں یہ ہو کہ میں نے چوری ہی کرنی ہے اور میرا مقصد ہی ملکی خزانے کو لوٹنا ہے تو پھر انسان ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتابلکہ وہ اپنے مشن پر کاربند رہتا ہے۔


اسی طرح آصف علی زرداری امیر ترین لوگوں میں سرفہرست ہیں ان کے پاس کتنے محلات اور جائیدادیں ہیں، پاکستان میں جو ہیں سو ہیں اس کے علاوہ دبئی، امریکہ،فرانس اور نہ جانے کہاں کہاں ان کے محلات موجود ہیں، ان کے پاس گاڑیاں زمین اور جادو کی کسی طرح بھی کمی نہیں ہے اس کے باوجود توشہ خانہ کے قوانین نرم کر کے چھوٹی چھوٹی چیزیں وہاں سے کوڑیوں کے بھاؤ اٹھا کر اپنے گھروں کو لے جاتے رہے۔ عمران خان کے پاس کون سی کمی ہے ان کے پاس جائیدادیں کیا کم ہیں، کئی سو کنال پر تو ان کا بنی گالا کا گھر ہے اس کے علاوہ لاہور اور دیگر شہروں میں ان کی کتنی جائیدادیں ہیں۔ ان کے ریاست مدینہ کے نعرے سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ شاید وہ ریاست مدینہ کے حکمرانوں کی طرح غریب اور مسکین شخص ہیں۔ ریاست مدینہ کے حکمران تو دنیا سے اس قدر بے رغبتی رکھتے تھے کہ ان کے پاس روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دولت نہیں ہوتی تھی، وہ پھٹے پرانے لباس پہنا کرتے تھے اپنے گھر والوں پر تنگی رکھا کرتے تھے بمشکل اپنے کھانے پینے کی چیزیں پوری کیا کرتے تھے جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم ہوا کہ ان کی تنخواہ میں اتنی رقم زیادہ آرہی ہے کہ ان کے کھانے کے علاوہ میٹھی چیز کے لیے بھی وہ پیسے بچا سکتے ہیں تو انہوں نے وہ بھی اپنی تنخواہ میں سے کم کروا دی لیکن ہمارے ریاست مدینہ کے دعویدار وں کے پاس بہت بڑی جائیدادیں موجود ہیں اس کے باوجود انہوں نے توشہ خانہ سے گھڑیاں، ہار، قلم اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی چیزیں چرانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔


غرض تمام حکمرانوں نے تو خانہ پر ہاتھ صاف کیے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس سے محفوظ رہا ہوں بیوروکریٹس، ججوں اور جرنیلوں سمیت سب نے توشہ خانہ سے چوریاں کیں۔ اگر انہوں نے ملکی قانون کے مطابق وہاں سے لیا تو یہ ملکی قانون بھی تو انہوں نے خود بنائے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اس میں ترمیم بھی کرتے رہے، جسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے قانون میں ترمیم کرکے اسے اپنے لیے جائز کر لیتا۔ سب نے ہی توشہ خانہ سے فائدہ اٹھایا اور پھر سبھی ایک دوسرے پر الزام بھی لگا رہے ہیں عمران خان نواز شریف کو نواز شریف زرداری اور زرداری عمران خان یہ سب ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر توشہ خانہ سے چوریاں کرنے پر تنقید بھی کر رہے ہیں حالانکہ چوریاں سب نے کیں کوئی اس کا انکار بھی نہیں کر رہا لیکن سب اپنی اپنی چوریوں کو جائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہم نے تو توشہ خانہ سے کچھ لینے سے پہلے ادائیگی کی تھی کوئی کہتا ہے ہم نے فلاں وقت ادائیگی کی تھی اس طرح سب اپنی اپنی چوریوں کو جائز کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام ایک ہی ذہنیت کے لوگ ہیں اور سبھی ملک کو لوٹنے کے لیے آتے ہیں اور خوب ہاتھ صاف کرکے ہی جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک یا دو کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ سب کے سب ایک ہی کیٹگری کے لوگ ہیں کوئی عوام کو دو نعرے دے دیتا ہے اور کوئی عوام کو دو سڑکیں دیتا ہے لیکن اندرون خانہ ان سب کا کی کارکردگی بالکل ایک جیسی رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں