توبہ اور شب قدر

محمد شہزاد نقشبندی
حضور نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے سب سے بہتر زمانہ میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوئے پھر جو ان کے بعد ہوں گے (بخاری) جوں جوں زمانہ‘ زمانہ رسول ؐ سے دور اور قرب قیامت کی طرف بڑھ رہا ہے توں توں انسان کا اپنے رب جو ہر چیز کا خالق و مالک رازق اور معبود حقیقی ہے سے تعلق کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اس کی عبادت و بندگی میں اخلاص و للہیت کی کمی اور دکھاوا بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شیطان کے بہکاوے میں بہتا ہی چلا جارہا ہے اور احساس ندامت و شرمندگی سے بھی عاری ہے اہل تقویٰ تو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے اپنے آ پ کوبچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ گناہ صغیرہ تو کجا گناہ کبیرہ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دے رہا اور مسلسل گناہوں کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جارہا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے پر بضد ہے اور زندگی کو بغیر احساس ندامت کے بڑے ہی طمطراق طریقے سے بسر کر رہا ہے حالانکہ ایسی تعلیمات نہ ہی ہمارے دین کی ہیں اور نہ ہی قرون اولیٰ کے بزرگوں کا شیوا بلکہ ہمارے بزرگوں کا طریق اس سے بالکل مختلف رہا ہے حضرت عبادہ بن قرط ؓ اپنے شاگردوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کرتے تھے تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی باریک ہوتے ہیں جبکہ ہم انہیں رسولؐ اللہ کے زمانے میں ہلاک کر دینے والے کام شمار کرتے تھے (سنن دارمی) چھوٹے گناہ ہی کے متعلق ایک روایت حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے فرماتے ہیں رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا صغیرہ گناہوں سے گریز کرو (ان کو حقیر مت سمجھو غور فرماؤ کہ)کچھ لوگ ایک وادی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں ایک آدمی ایک لکڑی لاتا ہے اور دوسرا لاتا ہے (ایک ایک کرکے اتنی لکڑیاں جمع ہو جاتی ہیں)وہ آگ جلا کر روٹیاں وغیرہ پکا لیتے ہیں اس طرح صغیرہ گناہوں کی بنا پر مواخذہ ہوا تو وہ بھی ہلاک کرسکتے ہیں (مسند احمد) دیکھیں کس طرح ایک مثال کے ذریعے چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے ڈرایا گیا ہے اانسان نسیان سے ہے یعنی بھولنے والا اور انہیں بھول بھلیوں میں اس سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں انہیں گناہوں کے بوجھ کو ختم کرنے اور دل کی ظلمت و تاریکی کو نور سے منور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ طریقہ توبہ ہے توبہ کی اہمیت کے پیش نظر اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کم و بیش 65 مرتبہ مختلف پیرایوں میں توبہ کا ذکر کیا جیسے سورہ تحریم میں ارشاد فرمایا اے ایمان والو اللہ سے توبہ کرو خالص توبہ (التحریم 8)اسی طرح حضور نبی مکرم ؐ نے اس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں (بخاری 6307)دوسری روایت میں آتا ہے رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ مایوسی کے بعد اچانک اسے مل گیا ہو حالانکہ وہ ایک چٹیل میدان میں گم ہوا تھا (بخاری 6309)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کوئی شخص تم میں سے موت کی آرزو نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے تو ممکن ہے اس سے توبہ کرلے (بخاری7235)قرآن و حدیث میں جس توبہ کی اتنی اہمیت بیان کی گئی ہے وہ توبہ ہے کیا امام ابو القاسم القشیری اپنے رسالہ قشیریہ میں توبہ کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ اس کا حقیقی معنیٰ رجوع کرنے اور لوٹ جانے کے ہیں اصطلاح شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اس سے لوٹ کر قابل تعریف کی طرف آ جائے یعنی گناہ اور برے کاموں کو چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف رجوع کر لینا توبہ کہلاتی ہے کچھ گناہ تو صریح اور بڑے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے انسان کو بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ میں گناہ گار ہو گیا ہوں لیکن کچھ ایسے خفیہ گناہ ہوتے ہیں جن کا انسان ادراک اتنا جلدی نہیں کر سکتا تو ان کو کیسے پہچانا جائے اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر بندہ محسوس کرے کہ روزمرہ کی عبادات کے اندر رغبت نہیں رہی وہ عبادات سے جی چرا رہا ہے اور اگر عبادت کرتا بھی ہے تو لذت نہیں ملتی اور اسی طرح آہستہ آہستہ اعمال میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے تو جان لے کہ اس کا دل آہستہ آہستہ تاریک ہوتا جا رہا ہے اس پر ظلمت اور تاریکی چھا رہی ہے اب ان گناہوں کے بوجھ کا طوق اتار کر اپنے مردہ دل کو پھر سے اللہ کی یاد سے زندہ کرنے اور تاریکی کو اللہ کے نور سے منور کرنے اور ٹوٹے ہوئے بندگی کے تعلق کو قائم کرنے کے لئے اس بزرگ و برتر ہستی جو تمام جہانوں کا خالق و مالک اور معبود حقیقی ہے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے معافی کا طلبگار ہو جائے اور صدق دل سے توبہ استغفار کرے رمضان المبارک کا رحمت و برکت و مغفرت و بخشش سے معمور مہینہ جا ری ہے اور اس مہینے کے عمومی فضائل تو ہیں ہی لیکن اللہ تعالی نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ایک ایسی رات رکھ دی ہے جس کے متعلق خود ارشاد فرمایا لیلہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس رات میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیرو برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں یہ رات طلوع فجر تک(سراسر) سلامتی ( سورہ القدر) حضور نبی رحمت ؐ کا ارشاد ذیشان ہے تمہارے پاس ماہ رمضان آیا یہ مبارک مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں اس مہینہ میں اللہ تعالی کی ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا تو وہ محروم ہوگیا (سنن نسائی) دوسری حدیث مبارکہ میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے سنا ہے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو(پھر) کب ہوگی قارئین رحمت و بخشش و مغفرت الہی کا یہ جو سمندر رمضان المبارک اور شب قدر کی صورت میں بہہ رہا ہے اور اب وہ اپنے آ خری حصے میں
ہے اگلے رمضان تک زندگی وفا کرے نہ کرے آ ئیں دیر نہ کریں اس فضل و کرم کے سمندر میں توبہ کا ایک غوطہ لگا لیں اور اللہ کی رحمت و بخشش و مغفرت کے موتی چن کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار لیں اللہ ہم سب کو سچی اور پکی توبہ کی توفیق دے اور اس کو قبول فرمائے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں