440

تنویر منھی‘والی بال کی دنیا کا باد شاہ

اناؤنسر نے مائیک پہ بلند آواز سے پکارا تو سینکڑوں کا ہجوم خوشی سے اچھل پڑا۔ تنویر منھی اپنی پوری ٹیم کی قیادت کرتا ہوا ایک شان کے ساتھ میدان میں داخل ہوا۔ گبھرو جوان،چوڑی چھاتی،شاندار لمبا قد، مضبوط جسم، چہرے پہ دلکش مسکراہٹ چھائی اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔


اناؤنسر نے ایک بار پھر مائیک پہ پکارا ”تنویر منھی المعروف بڑا منھی“والی بال کی دنیا کا بادشاہ،شہزادہ کھلاڑی،آپ کیسامنے،میدان میں آمد پر ویلکم،موسٹ ویلکم،بسم اللہ’میدان دیر تک زور دار تالیوں سے گونجتا رہا۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔تنویر منھی کے چاہنے والے بھاگ بھاگ کر اس سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ اسے پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ ڈھول کی تھاپ پر اس کا شاندار استقبال کیا گیا
۔ میچ کا آغاز ہوا۔ تنویر منھی کے مکوں کی ضرب سخت چمڑی والی بال پر پڑتی تو بال گولی کی رفتار سے مخالف ٹیم کی طرف جاتا

وہ بال پر اتنی قوت سے ضرب لگاتا کہ مخالف کھلاڑیوں کے دل دھک دھک کرنے لگتے۔اس کی اکثر ضربوں پر بال مخالف ٹیم کے بیچ کسی راکٹ لانچر کی طرح گرتا۔تماشائیوں کے دل لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ دھول اڑتی اور میدان تالیوں کے شور سے گونج اٹھتا۔اس کی ہر کامیاب شارٹ پر نوٹ نچھاور کیے جاتے۔ یہ اس کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ والی بال کا میدان تنویر منھی کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا
۔ اس کا بڑا کھلاڑی ہونا بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے بھی عزت کا باعث تھا۔ کیوں کہ وہ اس کے بھروسے اور کھیل میں مہارت کی بنیاد پر والی بال کے کامیاب میچوں کا انعقاد کرواتے تھے۔ ایک طرف تنویر منھی داد و تحسین سمیٹتا تو دوسری طرف وہ اپنا شملہ اونچا کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ گویا یہ کمال ان کا ہے۔

کیوں کہ یہ باکمال کھلاڑی ان کا انتخاب ہے۔ وقت گزرتا رہا اور تنویر منھی والی بال کی دنیا میں نام کماتا رہا۔پھر ایک دن اچانک نجانے کیا ہوا کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ وہ لاٹھی کے بل چلنے پر مجبور ہو گیا۔
والی بال کا بے تاج بادشاہ بال پر اپنے ہاتھ کی فولادی ضرب لگانے سے محروم ہو گیا۔اس کے ہاتھ سے اس کا ذریعہ معاش چھن گیا۔ شائقین کے دل ڈوب گئے۔ پھر ایک دن والی بال کے کانٹے دار مقابلے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ بے چینی سے اس مقابلے کا انتظار کرنے لگے۔
مقابلے والے روز میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ والی بال کے مقابلوں کا مشہور روایتی اناؤنسر چیخ چیخ کر کھلاڑیوں کا تعارف کروا رہا تھا ”پرندہ قسم کا کھلاڑی، نواب کھلاڑی، شہزادہ کھلاڑی“ لیکن نجانے کیوں میرے کان ”تنویر منھی المعروف بڑا منھی،والی بال کی دنیا کا بادشاہ” جیسے الفاظ سننا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر منھی کو فراموش کر دیا گیا تھا۔ تالیوں اور شور کی گونج میں میچ شروع ہو چکا تھا۔ شہ زور قسم کے کھلاڑی اچھل اچھل کر بال پہ ضربیں لگا رہے تھے۔

ہر کامیاب ضرب پر ان کو نقد انعام بھی ملتا۔ اچانک میری نظر تنویر منھی پر پڑی۔ وہ تماشائیوں کے ہجوم میں لاٹھی کے سہارے کھڑا تھا۔ وہ حسرت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ ہوا میں تیرتی ہوئی بال پر کاری ضرب لگانا چاہتے تھے لیکن وہ بے بس تھا۔ اس کے چہرے کی دلکش مسکراہٹ مایوسی میں بدل چکی تھی۔ شائقین بھی اس کو بھول چکے تھے۔ کیوں کہ اب وہ والی بال کا شہزادہ کھلاڑی نہیں بلکہ ایک مفلوج انسان تھا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں