شاہینوں کا شہر سرگو دھا بلا شبہ ایک ایسا مردم خزمخطہ ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک نابغۂ روزگار اور نادر الوُجُود ہستیاں ارضِ پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عدیم النَّظِیرمقام رکھتی ہیں ۔مذہبی حوالوں میں جہاں مفسر قرآن و دلنواز سیرت نگار حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمتہ اللہ جیسی جلیل القدر ہستی کا ذکر خیر کیا جائےتو وہیں ادبی دبستانِ سرگودھا میں معروف نقاد و شاعر اور انشایئہ نگار پروفیسر ڈاکٹر وزیر آغا اور ماہر اقبالیات اور محقق و مورخ پروفیسر محمد منور مرزاجیسی یگانَۂ روزگار ہستیاں شہرِسرگودھا کی عزت و آبرو بڑھانے کا سبَب عَظِم بنتی نظر آتی ہیں
اور اگر بات دور حاضر کی جائے توسلطانِ اقلِیمِ الفاظ و معانی ،ماہر اقبالیات و لسانیات ، مایہ ناز محقق و مورخ ، معروف براڈ کاسٹر و ریڈیو کمپئراور مشہور شاعر و ادیب جنا ب پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم صاحب بلاشبہ سرگودھا شہر کی ادبی کہکشاںمیں سب سے نمایاں ، درخشاں و تاباں اور ممتاز ادبی ستارہ نظر آتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم بلاشبہ اردو ادب کے ایک مایہ ناز خوشہ چیں ہیں
۔آئے روز قومی اخبارات میں ان کے سیر حاصل تبصرے اور کالم بلاشبہ ان کے اشہب قلم کی سلاسَت بیانی کے گواہ ہیں۔وہ 2اکتوبر1955ء کو مرزا محمد ایوب گھر پیدا ہوئے۔ نویں جماعت میں تھے تو اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے رہے۔
انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۱ سرگودھا سے میٹرک ، گورنمنٹ کالج سرگودھا سے فرسٹ ائر اور پھر بی اے سے آگے تمام تعلیم بطور پرائیوٹ امیدوار حاصل کی۔ماشاءاللہ اب تک چار مضامین میں ایم اے پاس ہیں۔1993 میں ایم فل اقبالیات بعنوان” اقبال بحیثیت ادبی نقاد” علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اور 2002 ء میں پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی سے پاس کی ۔وہ تقریبا 130ادبی اور 27نصابی نوعیت کی گراں مایہ کتابوں کے تخلیق کار ہیں انھوں نے 6مارچ 1981ء سے کالج میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔
صدر شعبہ اردو گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا کےعہدے پر بھی براجمان رہے اور بلآخر یکم اکتوبر 2015ء کو بیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے۔
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی ادبی تخلیقات بلاشبہ ژرف نگاہی اور عرق ریزی کی عمدہ ترین مثال ہیں۔انی جولانی قلم سلاسَت و روانی سے ادبی خزانوں کے گوہر ہائے آبدارتخلقا کرتی جاتی ہے ۔ان کا شمار ان چند گنے چنے اربابِ قلم میں ہوتا ہے جن پرقسّام اَزَل اس درجہ مہربان ہے کہ انھیں نطم و نثر ہر دو طرح کے اسلُوب کے ضوابط و لازم اورمبادیات پر کامل دست گاہ حاصل ہے ۔
معروف ا سکالر پروفیسر محمد حسن عسکر ی لکھتے ہیں ہم کتنے اور کس قسم کے الفاظ پر قابو حاصل کر سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں زندگی سے ربط کتنا ہے۔محترم حسن عسکری کی یہ بات جناب پروفیسر ہارون الرشید تبسم کے کتاب زیست کےگہرائی و گیرائی سے کئے گئے مشاہدے و تجربے اور عمیق مطالعہ کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔علمی و ادبی قحط کے اس دور میں فلسفہ ، تاریخ ، جمالیات ، مذہب ، نفسیات ، شاعری ، تنقید اور دیگر ہر اسلوب پر ان کی قلم کی جولانیاںصفحَۂ ہَسْتی پر خوبصورت معاشرتی و سماجی رنگ بکھیرتے نظر آتی ہیں
انہوں نے جس صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا اس میں ان کی فکری گہرائی اور فنی پختگی نے خوبصورت ادبی نقوش چھوڑے ، ان کا اسلوب بلاشبہ سادہ و دلکش ، حکیمانہ اور محققانہ ہے۔وہ مفہوم میں وضاحت و قطعیت اور ایجاز و اختصار ملحوظ رکھتے ہیں ۔ان کا طرزِ نگارش مصادر و مراجع کے تابع ہے ، ا ن کی تحریر میں وہ بالیدگی اور بالغ نظری پائی جاتی ہے جو کسی کہنہ مشق ادیب اور شاعر کی برسوں مجاہدہ و ریاضت کا نچوڑ ہوتی ہے۔وہ عام قاری کی ذہنی سطح و رسائی کا خیال کرتے ہوئے دشوار سے دشوار اور گنجلک موضوعات کو بھی آسان اور سادہ لفظوں میں بیان کر نے کا ہنر رکھتے ہیں ۔
پروفیسر تبسم صاحب کی ادبی نگارشات کا دائرہ فکر اسلام، وطن عزیز پاکستان، قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ اقبال کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔انھیں اقبال اور اقبالیات سے گہرا شغف ہے بلکہ یوں کہیے کہ وہ نبّاض اقبالیات ہیں۔ ان کے اثاثہ قلم کو دیکھیں تو ان کی ادبی نگارشات بحر فکر اقبال میں غوطہ زن ایک دل ربا کہکشاں دکھائی دیتی ہیں ۔پروفیسر ہارون الرشید تبسم صاحب کی 37کتابیں اقبالیاتی ادب میں بہار دکھا رہی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے
1) اقبال جو اقبال ہے(2)حیاتِ اقبال کا سفر(3)بیت بازی اقبالیات(4)علامہ اقبال بحیثیت اَدبی نقاد(5)خزینہ ٔ اقبال (6)اقبال کے گوہر شہوار (7) اقبال اور سرگودھا (8) قندیل اقبال (9)ڈاکٹر وزیر آغا بطور اقبال شناس(10)خورشید اقبال(ـ11) ڈاکٹر ایوب صابر بطور اقبال شناس(12)تقاریر اقبال (13)ڈاکٹر زاہد منیر عامر…مفکر و اقبال شناس(14)ذخیرۂ اقبالؒ(15)کائنات اقبالؒ (16)بیت بازی کلام اقبالؒ (17)موضوعاتی کلام اقبالؒ (18) بہارِ اقبالؒ(19)ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بحیثیت اقبال شناس (20)نویرۂ اقبال(21)ڈاکٹر سلیم اختر بحیثیت اقبال شناس(22)چند ہم عصر اقبال شناس(23)فکرِ اقبالؒ میں انسانی مسائل کا حل (24)عہدِ رفتہ کے ممتاز اقبال شناس(25)اقبالیات بچوں کے لیے (26)فلسفۂ اقبال اور نیا پاکستان(27)کلامِ اقبال میں ممتاز شخصیات (28)شانِ اقبال(29)تحریم ِ اقبال (30)معراجِ اقبال (31)اقبال شناس خواتین(32)محافظِ اقبال (33)کلامِ اقبال میں مقامات (34)حکمتِ بالغہ میں اقبال شناسی (35)شوکتِ اقبال (36)بالا ں لئی اقبال (37)اقبالیاتی کتب مینار وغیرہ وغیرہ ۔
انکی شخصیت ادب و سخن کی کسی ایک جہت تک محدود نہیں ہے بلکہ خوبصورت نثری سرمایہ کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب کے چار شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں جن میں “ویران آنکھوں کے خواب” اور غزلوں کا مجموعہ “ارمغانِ وطن” اردو ادب کا بلاشبہ عظیم سرمایہ افتخار ہیں
پروفیسر صاحب نے ادبی دنیا کے لکھاریوں اور ان کے فن پاروں کی فکری و فنی خوبیوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے تبصرہ نگاری کا خوبصورت سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور اس پر اتنا زیادہ کام کر چکے ہیں کہ اب ماشاء اللہ کتابوں کے تبصروں پر مشتمل کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان کا کہنا ہے کتابوں کی ورق گردانی ایک اُستاد اور طالب علم کے لیے بہت ضروری ہے ۔ کتابیں انقلاب کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ کتابوں سے عشق ادب سے وابستگی کا آئینہ دار ہے۔ان پر اسٹیفن کنگ کی یہ بات صادق آتی ہے کہ :-
“If you don’t have time to read, you don’t have the time (or the tools) to write”.
وہ دوست احباب کی کتابیں پڑھتے جاتے ہیں اور اپنے خوبصورت تبصروں سے انھیں مرصع کرتے جاتے ہیں ۔تبصرہ نگاری کے ضمن میں ہی معروف سیرت نگار اور عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ممتاز نعت گو شاعر جناب تفاخر محمود گوندل سے انکی بے پایاں عقیدت و محبت کاقابل رشک اظہار ملتا ہے ۔تفاخر گوندل صاحب کی تقریبا تما م کتابوں کی تقریظ آپ کے رہوار قلم کی اسیر ہے ۔جناب تفاخر صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے وہ صحیح معنوں میں مزاج شناس تفاخر معلوم ہوتے ہیں
جو جھیورانوالی کی گڈری میں چھپے تفاخر محمود گوندل صاحب جیسے لعل نایاب کو ایک ماہر گوہر شنا س کے طور پر دنیا کے سامنے لاتے دکھائی دیتے ہیں ۔جناب تفاخر محمود گوندل جیسی عدیم المثال ہستی کے ادبی اوصاف زیر قلم لاتے ہوئے وہ یک صفحاتی اخباری کالم پر ہی انحصار نہیں کرتے بلکہ” رشحات تفاخر” اور ” تفاخر ادب” جیسی گراں مایہ کتب لکھ کر ہی دلی تسکین حاصل کر پاتے ہیں ۔”رشحات تفاخر “جناب تفاخر گوندل کی تمام ادبی نگارشات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ایک طرف رشحات تفا خرمیں ٰ بلاشبہ تفاخر گوندل صاحب کے سارے ادبی لعل و گوہر ایک کتاب میں خوبصورت سے جڑ د یئے ہیں تو دوسری طرف اپنی کتاب “تفاخر ادب” میں گوندل صاحب کی تمام ادبی نگارشات کا ادبی خلاصہ کچھ اس انداز سے بیان کر دیا ہے:-
“تجلیات رسالت ﷺ” کی روشنی اسے “نکہت نور” سے یوں سرفراز کرتی ہے کہ وہ “معارف العباد” میں ڈوب کر نہ صرف “غمزہ ء خوباں ” بل کہ “گیسوئے برہم” کو اپنے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں۔ “جلوہ ہائے جمال” نے انھیں “تقدیس” کی روشنیوں سے ہم کنار کر رکھا ہے۔”
رشحات تفاخر اور تفاخر ادب جیسی گراں مایہ کتب پڑھنے کے بعد راقم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہے کہ پروفسیر تبسم صاحب نے ایم فل مقالہ جات لکھنے والوں اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی سہولت و آسانی کے لئے فکر تفاخر گوندل سے متعلق تمام ادبی مواد کو نہایت خوبصورتی و خوش اسلوبی کے ساتھ ایک جگہ یکجا کر کے بلا شبہ احسان عظیم فرما یا ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید تبسم اپنی بے پناہ قلمی مصروفیات کے باوجود بزم علم و فن سرگودھا ، نظریہ پاکستان اکادمی سرگودھا اور پاکستان ادب ااکادمی سرگودھا کے بیک وقت صدر ہیں اس کے علاوہ وہ رائٹرز اکیڈمی سرگودھا کے جنرل سیکرٹری اور چیئر مین پاکستان لٹریری کونسل کااعلیٰ اعزاز بھی رکھتے ہیں خدائے لم یَزَل سے دعا ہے کہ سرگودھا کے اس عظیم سرمایَۂ ناز کا سایہ ء عاطفت کامل صحت و تندرستی کے ساتھ یونہی ادبی حلقوں کے سروں پر قائم و دائم رکھے۔آمین