تعلیم کا معیار: والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے، مگر ہمارے ہاں تعلیمی اداروں کی کثرت کے باوجود معیار وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔ والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ تین ایسے ستون ہیں جن کے درمیان تعاون اور شفافیت کے بغیر معیاری تعلیم ممکن نہیں۔

والدین کو سوال کرنے چاہییں

والدین کا فرض ہے کہ وہ اسکول انتظامیہ سے یہ سوالات ضرور کریں:

اساتذہ کی قابلیت اور تجربہ کیا ہے؟

کیا ہر مضمون کے لیے سبجیکٹ اسپیشلسٹ اساتذہ موجود ہیں؟

نصابی کتب معیاری پبلشرز کی ہیں یا غیر معیاری؟

کیا اساتذہ کو بروقت تنخواہیں ملتی ہیں، خاص طور پر گرمیوں کی چھٹیوں میں؟

یہ سوالات والدین کا حق ہیں کیونکہ ان کے بچوں کا مستقبل براہِ راست ان پر منحصر ہے۔

سبجیکٹ اسپیشلسٹ کا فقدان

اکثر اسکولوں میں ایک ہی استاد کو بیک وقت میتھس، فزکس، بائیولوجی اور کیمسٹری پڑھانے پر لگا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ الگ الگ اسپیشلائزیشنز ہیں۔ اگر فل ٹائم اسپیشلسٹ رکھنا ممکن نہ ہو تو وزٹنگ ٹیچرز کا انتظام کیا جا سکتا ہے تاکہ طلبہ کو معیاری تعلیم میسر ہو۔

پرائمری سیکشن کی کمزوریاں

پرائمری سطح پر بھی میتھس، سائنس اور انگریزی کی بنیاد کمزور رکھی جاتی ہے۔ بچوں کو گرامر نہیں سمجھائی جاتی، اردو غیر اسپیشلسٹ کے حوالے کر دی جاتی ہے، اور نوٹ بکس صرف رٹنے پر مبنی جوابات سے بھری ہوتی ہیں۔ اساتذہ کی کمزور تیاری بچوں کے تصورات کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔

غیر معیاری کتب کا مسئلہ

بہت سے اسکولز معیاری پبلشرز کی کتابوں کے بجائے غیر معیاری کتب استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اس پر توجہ دیں اور اسکول انتظامیہ سے سوال کریں کہ نصابی کتب کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔

شام کی ٹیوشنز اور بچوں کی صحت

اگر اسکول کا معیار بہتر ہو تو شام کو ٹیوشن سینٹرز کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ مگر اکثر والدین کو اپنے بچوں کو شام میں بھی اضافی کلاسوں میں بھیجنا پڑتا ہے۔ اس سے بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ شام کا وقت کھیل، میل جول اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ اضافی پڑھائی کے دباؤ کے لیے۔

والدین اور فیسوں کا معاملہ

یہ حقیقت والدین کو تسلیم کرنا ہوگی کہ معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کوالیفائیڈ اساتذہ کو اچھی تنخواہیں دینا ضروری ہے۔ اگر اسکول واقعی سبجیکٹ اسپیشلسٹ فراہم کرتا ہے اور طلبہ کو انفرادی توجہ دیتا ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ فیس بڑھانے کی مخالفت نہ کریں۔ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ یہ اخراجات دراصل ان کے بچوں کے مستقبل پر سرمایہ کاری ہیں۔ کم فیس والے ادارے بظاہر سستے لگتے ہیں مگر وہاں طلبہ کو شام کی ٹیوشن پر جانا پڑتا ہے، جو والدین کے وقت اور پیسے دونوں کا زیادہ ضیاع ہے۔

ایک بڑا تعلیمی بزنس گیپ

کلر سیداں روڈ، بالخصوص ڈی ایچ اے سیون گیٹ کے اطراف، کئی اسکولز ہیں مگر درمیانے طبقے کے والدین کے لیے پانچ سے دس ہزار روپے فیس میں معیاری تعلیم دینے والا ادارہ دستیاب نہیں۔ اس خلا کے باعث والدین کو بھاری کرائے ادا کر کے بچوں کو روزانہ راولپنڈی شہر بھیجنا پڑتا ہے۔ یہ ایک بڑا تعلیمی بزنس گیپ ہے جسے پُر کرنا نہ صرف سرمایہ کار کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ ہزاروں والدین کے لیے بھی ریلیف کا باعث بنے گا۔

والدین کے لیے چند عملی تجاویز

اسکول انتظامیہ سے اساتذہ کی قابلیت اور تجربے کے بارے میں سوال کریں۔

صرف انہی اداروں کا انتخاب کریں جہاں سبجیکٹ اسپیشلسٹ اساتذہ موجود ہوں۔

بچوں کی نوٹ بکس اور نصابی کتب کا معیار لازمی چیک کریں۔

اسکول انتظامیہ سے بروقت تنخواہوں اور اساتذہ کی فلاح کے بارے میں استفسار کریں۔

ایسے اسکولز کو ترجیح دیں جہاں طلبہ کو شام کو ٹیوشن کی ضرورت نہ پڑے۔

کھیل اور تخلیقی سرگرمیوں کو بچوں کی تعلیم کا حصہ سمجھیں۔

کم فیس پر خوش ہونے کے بجائے اس بات پر توجہ دیں کہ ادارہ کتنا معیاری ہے۔

اگر اسکول کوالیفائیڈ اساتذہ مہیا کرے تو فیس میں اضافے کو بچوں کے مستقبل میں سرمایہ کاری سمجھیں۔

اختتامیہ

تعلیم پر سمجھوتہ بچوں کے مستقبل پر سمجھوتہ ہے۔ معیاری تعلیم صرف اس وقت ممکن ہے جب والدین سوال کرنے کی ہمت کریں، اسکول انتظامیہ شفافیت دکھائے، اور اساتذہ کو ان کا جائز مقام اور عزت دی جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے شام کو ٹیوشن کے بجائے کھیل کے میدان میں وقت گزاریں، تو ہمیں آج ہی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی اجتماعی کوشش کرنی ہوگی۔