تعلیمی نظام میں اخلاقیات کی ضرورت و اہمیت

دنیا میں ترقی کے لیے اخلاقیات بہت ضروری ہیں۔ جو قوم اچھے اخلاق سے عاری ہوتی ہے وہ ترقی نہیں کر سکتی کیونکہ وہاں کے عوام کو رہن سہن کا سلیقہ معلوم نہیں ہوتا۔ وہاں چوری چکاری، لوٹ مار، دھوکہ دہی، رشوت ستانی کو برا نہیں سمجھا جاتا اور جس معاشرے میں ایسے رذیل افعال کو برا نہ سمجھا جاتا ہووہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ چاہے وہاں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو خواندگی کا معیار سو فیصد ہو لیکن اخلاقیات کے بغیر سب بے کار ہے۔ اسلام نے اخلاقیات پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اچھے اخلاق اپنانے کی خصوصیت کے ساتھ تاکید کی ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اخلاق حسنہ کا عملی نمونہ امت کے سامنے پیش کیا ہے قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا، ترجمہ”: او ربے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں“(القلم)۔ اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیعؒ نے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے متعلق لکھا ہے کہ ”اس میں رسول اللہ ﷺ کے اخلاقِ فاضلہ کاملہ میں غور کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دیوانوذرا دیکھو تو کہیں مجنونوں دیوانوں کے ایسے اخلاق و اعمال ہوا کرتے ہیں۔“
آج اگرہم اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اخلاقیات کے شدید فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ برابر ہو چکے ہیں، کسی کو دوسرے کا احساس نہیں ہے، سبھی اپنے اپنے داؤ لگانے کے چکر میں ہیں خواہ اس میں کسی دوسرے کا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ ایک ریڑھی والے کو دیکھیں تو وہ اپنے طریقوں سے دوسروں کو دھوکا دینے میں مصروف ہے اور ایک اعلیٰ افسر کو دیکھیں تو اس کے پاس دوسروں کو الو بنانے کے اپنے طریقے ہیں۔ ہر محکمہ اور ہر دفتر کرپشن اور لوٹ مار میں ملو ث ہے، کسی میں احساس ذمہ داری نہیں ہے۔ ایک چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر جنرل تک سبھی دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہاں کس طرح کچھ بٹورا جائے، اس کے لیے وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے دوسروں کو تنگ کرتے اور ان سے رشوت وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمران اور سیاستدانوں کے پاس تو ملکی خزانہ ہوتا ہے ان کے پاس لوٹ مار کے کئی حربے ہوتے ہیں جن سے وہ پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
ہماری نجی اور گھریلو زندگیاں بھی انتہائی غیر اخلاقی ہو چکی ہیں، میاں بیوی کی آپس میں نہیں بنتی، والدین کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے۔ گھر میں اگر ملازم رکھے ہوں تو انہیں غلام سمجھا جاتا ہے اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ حتی کہ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔محلے کے امراء غریبوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ”میں دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا“۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے مکارمِ اخلاق کا یہ حال تھا کہ مدینہ کی کوئی لونڈی باندی بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لے جانا چاہتی لے جا سکتی تھی“ (رواہ البخاری)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے کہ اسمیں کفار کو مارنا اور قتل کرنا ثابت ہے ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو نہ کسی عورت کو کبھی مارا، ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو تو اس پر شرعی سزا جاری
فرمائی“ (رواہ مسلم)۔
اسلام نے ہمیں نہایت اعلیٰ اخلاق سکھائے ہیں ہمیں معاشرے میں رہنے سہنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ بات بات پر لڑنا جھگڑنا اور گالم گلوچ کو سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جو کہ ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلا ہوا ہے، اچھے اچھے پڑھے لکھے افراد غصے میں اتنے مغلظات بکتے ہیں کہ سننے والا برا منانے کی بجائے دنگ رہ جاتا ہے کہ دیکھنے میں تو اتنے پڑھے لکھے اور مہذب معلوم ہوتے ہیں لیکن زبان کسی جاہل اور گنوار سے بھی زیادہ کالی رکھی ہوئی ہے۔ راہ چلتے گاڑی یا موٹر سائیکل کی ہلکی سی ٹکر ہو جائے بلکہ ٹکر نہ بھی ہو ذرا زور سے بریک ہی لگانی پڑجائے تو اس پر بھی اچھا خاصا تنازعہ کھڑا کر لیتے ہیں۔ یہ معاشرے کی اخلاقی پستی کی بدترین مثال ہے۔
نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا کر رکھاہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کوئی مفکر بنے سیاستدانوں کو گالیاں دے رہے ہیں تو کوئی مناظر بنے دوسرے دینی مسالک کو برا بھلا اور کافر قرار دے رہے ہیں۔ کچھ نے تو بے حیائی اور فحاشی کا علم تھام رکھا ہے اور اس میں مغرب کو بھی مات دینے کی جستجو میں ہیں، اس میں خواتین پیش پیش ہیں۔ نوجوان اپنا انتہائی قیمتی وقت سوشل میڈیا پر برباد کر رہے ہیں اور انہیں کچھ پرواہ ہی نہیں ہے کہ ان کے ذمہ کچھ اور کام بھی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی ایک یہ بھی بہت بڑی بیماری ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کے اذہان میں یہ ڈال دیا ہے کہ تم نے پڑھ لکھ کر کہیں اچھی سی ملازمت کرنی ہے اب ملازمت کے لیے کچھ زیادہ محنت یا کسی اضافی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف رٹے لگا کر ڈگریاں حاصل کر لیں تو ملازمت مل ہی جاتی ہے اس لیے قوم میں زیادہ تر ملازم ہی ہیں جبکہ رہنماؤں کا انتہائی فقدان ہے اور تعلیم کا مقصد فقط حصول دولت بن چکا ہے اور بچوں کو یہی سکھایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پڑھنے کے بعد وہ حصول دولت کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور جہاں سے ملے حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ اس میں صرف پڑھایا بلکہ رٹایا جاتا ہے، جس کے بعد نوجوان ڈگریاں لے کر خود کو پڑھا لکھا تو سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان میں تعلیم یافتہ افراد کی کوئی خصوصیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارا نظام تعلیم نوجوانوں کو با صلاحیت بنانے کے قابل ہے۔ ہمیں معاشرے سے جرائم کے خاتمے اور ترقی کے لیے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نصاب میں خصوصی طور پر ایسی کتابیں شامل کی جائیں جن میں گناہوں اور برائیوں کے بارے میں بچوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی گئی ہو۔ اساتذہ لیکچرز میں بھی بچوں کو برائیوں سے دور رہنے اور معاشرے میں رہنے سہنے کے سلیقے سکھائیں۔ بچوں میں اساتذہ اور والدین کا ادب پیدا کریں، انہیں چھوٹے بڑے کی تمیز سکھائیں، ماتحتوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کریں۔ اپنے کام خود کرنے کا شوق پیدا کریں، کچھ عرصہ قبل میڈیا پر ایک خبر پر میڈیا میں ہنگامہ برپا ہوا تھا کہ پنجاب کے کسی سرکاری سکول کے اساتذہ نے طلبہ سے کہیں تھوڑی سی اینٹیں اٹھوائی ہیں۔ اب یہ کون سی بری بات تھی؟ اگر سکول کا تھوڑا سا کام بچوں نے کر لیا ہے تویہ تو اچھی بات ہے، بلکہ بچوں سے سکول کی صفائی ستھرائی بھی کرانی چاہیے دیگر چھوٹے موٹے کام بچوں سے لینے چاہئیں تاکہ انہیں اپنے کام خود کرنے کی عادت ہو۔ ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اخلاقیات پر خصوصی طور پر توجہ دیں تبھی ملک کا
نظام درست سمت گامزن ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں