تعلقات

عبدالجبار/زیادہ مشورے دینے اور نصیحتوں کے انبار لگانے سے پرہیز ہی تعلقات کے دیر پا قائم رہنے کی ضمانت ہوتے ہیں جب تک روک ٹوک اور عمل دخل معاملات میں زیادہ نہیں ہوتا ملنے ملانے اور گپ شپ کی چاہیت برقرار رہتی ہے۔زیادہ تفتیش اور معلومات حاصل کرنے کے لیے سوالات بھی باہمی تعلقات کو نقصان پہچاتے ہیں،ہنسی مزاح اور تمسخر اڑانا تعلقات کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں بہت سے لوگ ہرایک بات کو غور سے سنتے ہیں اس پر تدبر کرتے اور نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کچھ آدمی دوسرے کی بات مکمل نہیں سنتے درمیان میں روک دیتے ہیں یا فوراًبات کو رد کر دیتے ہیں اس سے بد دلی پھیلتی ہے ہمدردی اورمحبت کا رشتہ کم ہوتا ہے۔اگر موقع اور حالات ایسے ہوں کہ بات سننے جواب دینے کے لیے وقت کمی درپیش ہو طبعیت مضمحل ہے آرام کی ضرورت ہے تو پھر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے حتی المقدور کوشش کی جائے کہ دل آزاری نہ ہو کسی کو جھڑکنے یا جنجھلاہیٹ کا مظاہرہ کرنے سے بھی لوگ دور ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ان اسباب کا روز مرہ زندگی میں جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس عمل سے معاشرے میں بے سکونی پھیلتی ہے ایک دوسرے کے انداز سے نالاں ہو کر غیبت پروان چڑھنا شروع ہو جاتی ہے بعض اوقات تمام تر توانائیاں ایک شخص کی مخالفت پر صرف ہونا شروع ہو جاتی ہیں اگر ایسی وجوہات پیدا نہ ہونی دی جائیں تو بہت سے لوگ بے معنی اور بے سود مشق سے بچ سکتے ہیں معاشرتی اضطراب اور کشمکش میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے،ہماری دیہی آبادی مل بیٹھ کر گپ شپ لگانے سے محروم ہو چکی ہے۔ایک وقت تھا کہ کوئی کام کرنے سے پہلے صلاح مشورہ کیا جاتا تھا اگر پھر بھی خدشات برقرار رہیں تو کسی عقلمند یعنی سیانے سے رابطہ کیا جاتا تھا اور مکمل چھان بین کے بعد فیصلہ کیا جاتا تھا یا کام شروع کیا جاتا تھا۔اب پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے اور ہر گھر میں مختلف جدیدذرائع کی وجہ سے آگاہی آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مشاورت میں کمی آچکی ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے معاملات انتظام والضرام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے نفع نقصان کی مکمل ذمہ داری فرد واحد کے اوپر آچکی ہے۔اب دوبارہ حالات یکسر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں وسائل کی کمی کا سامنا ہو رہا ہے آمدنی کم ہو رہی ہے روزگار مل نہیں رہا اب جتنی ضرورت ایک دوسرے کے مدد مشورے اور ہمدردی کی ہو گی شاید پہلے نہ تھی۔تعلقات کے اندر لالچ، ہوس،انتقام اور بے غرتی کے عناصر کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔خالص دینی جذبے سے معاشرتی تعلقات کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت ہے۔مسلمان کے پاس تو عملی مثالیں موجود ہیں ہجرت مدینہ کے وقت حضور نے صحابہ کرام کو آپس میں بھائی بھائی بنایا اور انصار بھائیوں نے ایثار کی وہ مثالیں قائم کی جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گی انہوں نے اپنے مکان،جائیداد تک میں مہاجر بھائیوں کو حصہ دار بنایاآج حقیقی حصہ دار وں،قانونی وارثوں کو ان کا حق دینے سے کتراتے ہیں۔مسلمان تو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ہمارے دین میں خود غرضی اور ظلم کی گنجائش ہی نہیں تو کیوں ہم غیرفطری،غیراسلامی طرززندگی اختیار کریں اثیار قربانی کے ساتھ شفقت احترام،ہمدردی اور انسانی سلوک کے ذریعے ایک دوسرے کی خدمت کی جائے۔افراتفری،نفسا نفسی،بھاگ دوڑ سے کرونا نے تو ویسے ہی جان چھوڑا دی ہے۔اب ہم کو موقع بھی ملا ہے کہ اپنی عادات،اطوار اور انداز بھی بدلیں۔دوسرے کو موقع دینے کی عادت اپنائیں،احترام کے انداز اپنائیں گفتگومیں شائستگی لائیں سوال جواباور بحث مباحثہ میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔بڑے کا ادب اور چھوٹوں کا احترام لازم کرلیں۔ہاتھ،زبان سے کسی کو کوئی تکلیف نہ دیں اور پاؤں کی ٹھوکر مارنادرکنار کسی کی طرف پاؤں بڑھائیں بھی نہیں چند روزہ زندگی کو خوبصورت بنا کر گزاریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں