تخت بھائی آج اور کل

بین الاقوامی شہرت یافتہ، تاریخی اور ثقافتی شہر تخت بھائی کے ماضی، حال اور مستقبل کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے ماندل ہاؤس تخت بھائی میں ایک اہم فکری نشست کا انعقاد ہوا، جس کا عنوان تھا: “تخت بھائی: آج اور کل”

نشست کی صدارت معروف دانشور، محقق اور ڈی آئی جی پولیس ڈاکٹر فصیح الدین اشرف پی ایس پی نے کی۔ اس موقع پر علمی، ادبی، صحافتی اور تحقیقی میدانوں سے وابستہ ممتاز شخصیات نے شرکت کی جن میں معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر نثار شموزئی، مؤرخ

ڈاکٹر جمعہ خان، دینی سکالر محقق مولانا حکیم رومان سینئر صحافی اور تخت بھائی پریس کلب کے بانی حیات اللہ اختر، ریاض مومند، جاوید مومنداور فخر الاسلام ٹکر شامل تھے۔

نشست میں تخت بھائی کی تاریخ و تہذیب اور نامور شخصیات اور ثقافت کی تحقیق ، تاریخی جغرافیہ اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے پر خصوصی زور دیا گیا۔ گفتگو کا دائرہ تخت بھائی کے ساتھ ملحقہ علاقوں کی وجہ تسمیہ مشہور مزارات ،
پولیس اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن،فرنٹیئر شوگر ملز، رحمان کاٹن ملز، یوسفزئی فلور ملز، بلدیاتی نظام اور ابازئی کنال تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جرندہ، تاریخی ٹکر جنگ، تنگ بازار، انجمن تاجران، اور قدیمی کاروباری مراکز جیسے چپلی کباب بازار پر بھی تفصیلی بات ہوئی۔

پہلا شمشان گھاٹ، اسکول و کالج، تخت بھائی کی ادبی سرگرمیاں، اولین پشتو ادبی ٹولنہ اور اس کے بانی شعراء کا تذکرہ بھی نشست کا حصہ رہا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تخت بھائی کی بھرپور تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ آنے والی نسلیں اس علمی، تہذیبی اور تاریخی ورثے سے روشناس ہو سکیں۔

نشست میں آثارِ قدیمہ کی تاریخی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ بتایا گیا کہ ماضی میں یہاں مختلف اقوام اور حکمرانوں کے آثار موجود رہے ہیں۔ یونیسکو نے سال 1980-81-میں تخت بھائی کے آثار کو عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا، جو اس مقام کی بین الاقوامی اہمیت کی دلیل ہے۔

اختتام پر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تخت بھائی کی اصل تاریخ، تہذیب و تمدن، اور ثقافتی پہچان کو منظم انداز میں محفوظ اور اجاگر کرنے کے لیے تحقیقی و ادبی کاوشوں کو مزید تقویت دی جائے گی۔
رپورٹ :سارہ خان

اپنا تبصرہ بھیجیں