تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چوکیدار

محمد شہزاد نقشبندی/پوری دنیا کے مسلمانوں پر بل عموم اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں پر بالخصوص تقریبا ڈیڑھ صدی سے بڑا کٹھن وقت گزر رہا ہے کیونکہ مسلمان معاشی‘معاشرتی‘اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں سب سے بڑھ کر فرقہ واریت نے ان کی رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے اس فرقہ واریت نے ان کی اجتماعیت کو ختم کر دیا لیکن ابھی تک ان کے اندر ایمان کی شمع روشن تھی اور اس شمع کی روشنی کے پیچھے تعلق مصطفیٰ ؐ محبت و عشق و ادب رسالت مآب ؐ تھا اس محبت و ادب مصطفیؐکو ختم کرنے کے لیے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اغیار و اسلام دشمن طاقتوں نے 1890 کے لگ بھگ ایک جھوٹے اور مکار شخص کو خود ساختہ داعی نبوت بنا کر مسلمانوں کے بیچ کھڑا کر ڈالا جس نے برسرعام ببانگ دہل سارے مسلمانان عالم کے سامنے اپنی (نعوذباللہ من ذالک) جعلی اور خود ساختہ نبوت کادعوی کیا اس کے دعوی کذب کو جھٹلانے کے لیے اللہ تعالی نے کچھ مخصوص لوگوں کو چنا جنھوں نے تحفظ ختم نبوت کے کام کو بڑی ہی جاں فشانی‘خوشدلی اور تندہی سے سرانجام دیا اور قادیانیت کے آگے بند باندھ دیا جن میں سرفہرست پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری جیسے جید علمائے کرام تھے جنھوں نے اپنے اپنے وقت میں کام کیا پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تو تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے کام کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی گئی اس کام کے لئے اللہ تعالی نے مولانا احمد شاہ نورانی مفتی محمود اورچوہدری ظہور الہی سمیت اس وقت کے تمام اراکین پارلیمنٹ کو چن لیا سب سے بڑھ کر اس وقت کے سیکولر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور اللہ تعالی نے ان سے یہ کام لینا تھا کام لیا اس طرح تمام پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا اس طرح ختم نبوت کا یہ معاملہ مستقل طور پر حل ہو گیا اسی طرح اسلام میں گستاخ رسول ؐکی سزا کیا ہے وفاقی شرعی عدالت میں کیس شروع ہوا تو شیخ لاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تقریبا 18 گھنٹے کے دلائل دے کر گستاخ رسولؐکی سزا کو سزائے موت ہے ثابت کیا جس پر 1973 کے آئین میں 95 کا اضافہ کیا گیااور اسی طرح قادیانیوں کی طرف سے شعائر اسلام کو استعمال کرنے کی اپیل کی گئی جس کی مخالفت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تقریباً 14 گھنٹے کے دلائل دئیے جس پر قادیانیوں کی درخواست خارج کردی گئی ان کو شعائر اسلام کے نام استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مولانا خادم حسین رضوی سے کام لیا وہ پاکستانی سیاسی منظر نامے کے افق پر دو ہزار سولہ میں ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے بعد کھل کر سامنے آئے اور ایسے نمودار ہوئے کہ پھر اپنے وصال تک منظر سے غائب نہ ہوئے سب کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا انہوں نے تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا2016 ہی میں توہین مذہب قانون کے حق میں احتجاجی ریلی نکالی اور آپ کو گرفتار کر لیا گیا کچھ وقت جیل میں گزارا 26جولائی2017کو تحریک لبیک پاکستان کے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروائی اور حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں پہلی مرتبہ تحفظ ناموس رسالت کے منشور کے ساتھ حصہ لیا اور تقریبا 7000 ووٹ لے کر تمام مبصرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا 2017 ہی میں حکومت نے ایک بل کے ذریعے خفیہ طور پر قانون ختم نبوت کی کچھ شقوں میں تبدیلی کی کوشش کی تو آپ نے چھ نومبر کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا آخر کار مذاکرات ہوئے جس کی بنا پر اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑا حکومت نے وہ ترامیم واپس لے لیں اسی طرح 2018 میں ہالینڈ نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی تو آپ کی جماعت نے بھرپور طریقے سے احتجاج ریکارڈ کروایا حالیہ دنوں میں فرانس میں سرکاری طور پر گستاخانہ خاکوں کی حمایت پر آپ نے 15 نومبر کو لیاقت باغ سے فیض آباد تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کے مطالبے کے ساتھ احتجاجی مارچ کیا اس پر حکومت کو ان کا بھر پور ساتھ اور میڈیا کوریج دینا چاہیے تھی تاکہ بہترین انداز میں اس مسئلے کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کیا جاتا اور عالمی برادری کو اس معاملے کی حساسیت اور نزاکت سے آگاہ کیا جاتا تاکہ ایسے سانحات کو مستقبل میں رونما ھونے سے روکا جا سکے لیکن حکومت نے اس کے بر عکس کیا اس نے تو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ڈالے پر امن مظاہرین پر شدید ترین آنسو گیس‘ لاٹھی چارج‘واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں استعمال کی گئیں بے شمار لوگ زخمی اور گرفتار ھوے اس کے باوجود مظاہرین استقامت کے پہاڑ بنے رہے گورنمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا خاص بات اس دھرنے میں رضوی صاحب بیماری کے باوجود حاضر رہے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا علامہ خادم حسین رضوی کی پانچ چھ سالہ جدو جہد کا خاکہ پیش کرنے کا مقصد و مدعا یہ تھا کہ آپ نے دیکھا اس تمام تر جدوجہد میں صرف اور صرف ایک ہی چیز نمایاں اور ان کا مرکزو محور تھی اور وہ تھی تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت تھا اس مختصر سے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کام ان کے سپرد ہوا انھوں نے بڑی شاندار ڈیوٹی نبھائی اسی لیے وہ اپنے آپ کو تحفظ ناموس رسالت کا چوکیدار کہتے تھے افسوس آج وہ چوکیدار ہم میں نہ رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں