تحصیل کلرسیداں میں بلدیات کی ہوا چل پڑی

ساجدمحمود‘پنڈی پوسٹ
ملک کی موجودہ مخدوش سیاسی صورتحال کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل ازوقت ہوگا تاہم حکومتی پارٹی کی جانب سے پیش کیے گئے حالیہ بجٹ میں ٹیکس اضافے پر عوامی حلقے تحریک انصاف کی حکومت کے غریب مٹاؤ اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے تحصیل کلر سیداں میں مسلم لیگ ن نے آمدہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کے حوالے سے منظم سیاسی صف بندی اور سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے جسکی واضع مثال چیئرمین یوسی گف راجہ فیصل منور جو سابقہ ایم پی اے اور مسلم لیگ ن پنجاب کے موجودہ نائب صدر قمراسلام راجہ کے قریبی عزیز ہیں نے بطورِ تحصیل ناظم کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا ہے اس سے قبل قانون کے شعبے سے وابستہ مسلم لیگ نون کلرسیداں کے سرگرم راہنما کامران عزیز ایڈووکیٹ بھی تحصیل ناظم کی نشست پر انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں تاہم راجہ فیصل منور ٹکٹ کے حصول میں سرفہرست ہیں تحریک انصاف کیجانب سے ملک سہیل اشرف ہارون ہاشمی اور وقاص شاہ کے نام گردش میں ہیں جبکہ چوہدری نثار علی خان گروپ کے حمایت یافتہ امید وار بھی انتخابی دنگل میں اترنے کیلئے انکے اشارے کے منتظر ہیں جس سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں کٹوتی کے آثار نمایاں ہیں جسکا تحریک انصاف کے امیدواروں کو سیاسی فائدہ حاصل ہو گا مسلم لیگ ن یوسی بشندوٹ کے چئیرمین راجہ زبیر کیانی کے تحصیل کی سطح پر سیاسی کردار کے حوالے سے عوامی حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں تاہم اس بارے میں انکی طرف سے کوئی واضح موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا یہ بات طے ہے کہ اگر راجہ فیصل پارٹی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو راجہ زبیر کیانی کی انہیں بھر پور سیاسی سپورٹ اور حمایت حاصل ہو گی دوسری طرف آمدہ بلدیاتی انتخابات کے موقعہ پر تحریک انصاف کی یوسی بشندوٹ میں سیاسی کردار اور نمائندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو بہت سے خود ساختہ امیدوار پس پردہ اپنی سیاسی ساکھ کو منوانے اور ایک دوسرے پر اپنی برتری جتانے میں خاصے متحرک ہیں جس سے پارٹی کے اندر گروپنگ اور دھڑے بندی کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور اگر عین انتخابات کے موقعہ پر پارٹی ٹکٹ کے حصول پر سیاسی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تو یوسی بشندوٹ میں تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکالگ سکتا ہے اس حلقے کی منتخب تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کے عوامی رابطوں کے فقدان سے بھی پارٹی ووٹ میں کمی کے امکانات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا دوسری طرف تحریک انصاف کے نوزائدہ ووٹر جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں تبدیلی سرکار کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی حالیہ حکومتی کارگردگی دیکھ کر انکے جذبات بھی اب ٹھنڈے پڑ گئے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کا نظریاتی ووٹ بینک اب بھی ایک حقیقت ہے اگر موجودہ حکومت عوام کو قلیل مدت میں ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی تو مہنگائی کے ہاتھوں پسی ہوئی عوام بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ نون کے پلڑے میں ووٹ ڈال کر اپنے دل کی بھڑاس نکالے گی تاہم شرط یہ ہے کہ انتخابات کے موقعہ پر حکومتی اور مقامی انتظامی مشینری شفاف انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر اثر انداز ہونے اور دخل اندازی سے گریز کرے آئے روز بدلتی ہوئی ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ مستقبل کی مقامی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے تاہم مقامی سطح پر عوامی حلقوں میں آمدہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور متوقع امیدواروں کے معیار کو جانچنے اور پرکھنے کیلیے گرما گرم بحث مباحثے جاری ہیں جس سے یہ نتائج اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ عوام جمہوری اقدار کے تسلسل کی پرجوش حامی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں