تحصیل کلرسیداں بچاؤ محاذ ‘ وقت کی ضرورت

عبدالجبار چوہدری
ایک وقت تھا جب کلرسیداں کو تحصیل کا درجہ دلوانے کے لیے کلرسیداں شہر کے مستقل رہائشی سید الیاس شاہ مرحوم اور اُن کے ساتھی ہر فورم پر یہ آواز اُٹھاتے ‘ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو ہر ملاقات ‘جلسہ عام کے موقع پر یاد دہانی کراتے رہتے تھے اسی وجہ سے ہی ہمیشہ قومی اسمبلی کے حلقے پر یہاں سے ٹاپ لیڈر شپ منتخب ہو کر وفاقی وزارت کے مزے لیتے رہے یہاں کے مقامی لوگوں نے امپورٹڈ ‘باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہا کہ ہمارے مطالبات قومی اور صوبا ئی سطح تک پہنچیں شو مئی قسمت کے تحصیل کلرسیداں بنوانے کا اعزاز کسی بھی ایسی قیادت کو حاصل نہ ہوسکا جس کو اہلیان کلرسیداں نے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا تحصیل کا درجہ دلوانے میں حلقہ سے منتخب نمائندوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ دھمیال کے راجگان سابق صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ نے کلرسیداں کو تحصیل بنوایا وہ بھی دو مرتبہ اس حلقہ سے بُری طرح ہار چکے تھے کلرسیداں کو کبھی یونیورسٹی‘کالج نہیں مل سکتا جب تک ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کا تعلق کلرسیداں سے نہ ہو اس بات کا ادراک تحصیل کلرسیداں کی تمام یونین کونسل میونسپل کارپوریشن چیئرمین سمیت کسی بھی منتخب نمائندے کو نہیں ہے۔ محض ذاتی تشہیر اور خانہ پُری کے لیے حلقہ بندیوں کو چیلنج کرتے ہیں یا قبول کر رہے ہیں‘ تحصیل کلرسیداں MUSHROOM بنا دینا قابل قبول عمل نہیں اس پر غیر معمولی احتجاج بنتا ہے اگر تمام منتخب یوسیز چیئرمین تحصیل کلرسیداں بچاؤ محاذ بنا لیں اور ایک نکاتی ایجنڈا پر آئندہ اپنا قومی اور صوبائی اُمیدوار دے کر الیکشن لڑیں تو کبھی کسی کو تحصیل کلرسیداں کو چیرنے پھاڑنے کی جرات نہ ہو گی یہ کہاں کی منطق ہے کہ اُمیدوار تو کلرسیداں کا ہو اور ووٹ مانگنے کے لیے تحصیل کہوٹہ‘تحصیل راولپنڈی‘تحصیل گوجرخان کے دیہات میں در بدر کی ٹھوکریں کھائے نہایت افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس بیانیہ کی طرف کلرسیداں کے کسی لیڈر کی توجہ نہیں کیا کلرسیداں کے لوگوں میں جرات نہیں کیا مالی ‘سماجی’معاشرتی لحاظ سے اتنے پست ہیں کہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں اگر سیاسی قائدین‘اس صلاحیت سے محروم ہیں تو میری درخواست ہے صحافی حضرات ‘اساتذہ‘ وکلاء ا ور علما سے کہ وہ آگے آئیں اور تحصیل کلرسیداں کے عوام کو ان کی پہچان لوٹائیں ۔ طلباء ہر اول دستے کا کردار ادا کریں‘ خواتین شانہ بشانہ چلیں تب جاکر ہماری بھی ووٹ کی عزت کہیں تسلیم ہو اگر عام لوگ بھی سیاسی قائدین ی طرح چپ سادھ کر بیٹھ گئے تو اگلے پانچ سال ہمارے حقوق کا نہ کوئی پاسبان ہوگا نہ ترجمان‘اس وقت کلرسیداں کے تمام سیاسی قائدین نے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کو ہدف بنایا ہوا ہے ٹکٹ ملنے کی صورت میں الیکشن لڑیں گے بصورت دیگر اپنی سیاسی پارٹی کے اُمیدوار کی احمایت پر ہی صاد کر بیٹھیں گے۔
شیخ قدوس نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے‘ راجہ ساجد جاوید تحصیل کلرسیداں سے باہر کے حلقہ این اے 59چک بیلی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں سابق تحصیل ناظم ملک سہیل اشرف کے اپنی پارٹی نے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں اعجاز بٹ‘زین العابدین عباس‘علم اٹھانی کی حسارت کر سکتے ہیں‘کامران عزیز ایڈوکیٹ‘ واصف علی ایڈوکیٹ‘یاسر بشیر راجہ ایڈوکیٹ‘اور عمیر بھٹیایڈوکیٹ قانونی جنگ لڑ سکتے ہیں مگر تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سید زبیر علی شاہ صدر PATکلرسیداں بھی آگے آ سکتے ہیں اور ان سب کو صحافتی حلقوں کی طرف سے زبر دست پذائی ملے گی عوام ان قائدین کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے یہ موقع کبھی پھر نہیں آئے گا۔ کلرسیداں کے سیاستدان جن کو اپنی بقاعزیز ہے وہ اس ’’بیانیہ‘‘ کے تحت تحریک کا آغاز کریں یاد رہے کہ اپنی مٹی سے وفا کرنے والے لوگ ہی تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں