تحریک لبیک کا بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ

تحریک لبیک پاکستان کے بانی مرحوم خادم حسین رضوی جو اپنے سخت انداز بیان سے مذہبی حلقوں میں خاصے مقبول تھے انکی وفات کے بعد انکے بیٹے سعدحسین رضوی نے بطور امیر جماعت کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے تحریک لبیک پاکستان جنہوں نے احتجاجی دھرنوں کی راہ اپنا رکھی تھی تاہم حکومت نے گفت وشنید اور افہام وتفہیم سے تمام معاملات حل کرنے کے بعد اس جماعت کو پولیٹیکل سپیس دے دی ہے اب اس جماعت کی قیادت نوجوان امیر سعد حسین رضوی کے ہاتھوں میں ہے جنھیں اعتدال پسند مذہبی حلقوں کی نظر میں عدم تشدد کا پرچار کرنے والی شخصیت کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے دوسری قابل تعریف بات یہ بھی ہے کہ ٹی ایل پی کی قیادت نے احتجاجی جلسے جلوسوں کو ترک کرکے ملکی آئین وقانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر جمہوری روایات کو اپناتے ہوئے ملک میں نفاذ نظام مصطفی کی جدوجہد کے لیے عملی طور پر سیاسی سفر کی راہ چن لی ہے جو حقیقی معنوں میں منزل کے حصول کا پتہ دیتی ہے۔اس جماعت نے محض چارسالوں میں ملک کے سیاسی افق پر ایک مضبوط مذہبی قوت کے طور پر خود کو منوایا ہے جبکہ2018کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ شرکت کرکے 20لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے ملک کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اس جماعت کی سیاسی قوت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سنہ2018کے انتخابات میں نامی گرامی سیاستدان قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں ناکام رہے تھے جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘سابق وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ‘ سابق وزیر مملکت طلال چوہدی‘عابد شیر علی سمیت متعدد لیگی رہنما شامل تھے الیکشن کے اعدادوشمار اگھٹے کرنے والوں کے مطابق مسلم لیگ ن کو گزشتہ عام انتخابات میں 15سے20نشستوں سے ٹی ایل پی کی وجہ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا پنجاب حکومت اور الیکشن کمیشن کے حالیہ جاری کردہ بیان کے مطابق پنجاب میں 15مئی کو مرحلہ واربلدیاتی انتخابات منعقد کرائے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے تو تحریک لبیک پاکستان نے بھی ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔نائب امیر تحریک لبیک پاکستان پیر سید ظہیر الحسن شاہ کے ایک بیان کے مطابق انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی فلاح وبہبود انکی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور بلدیاتی انتخابات میں عوامی حمایت سے تمام جماعتوں کو ٹف ٹائم دیں گے گو آمدہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کھلم کھلا سیاسی سرگرمیاں فی الحال سست روی کا شکار ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صف بندی اور ممکنہ امیدواروں کے ناموں پر غور جاری ہے دیگر سیاسی پارٹیوں کیطرح ٹی ایل پی بھی بلدیاتی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کیلیے تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسلز میں متحرک اور پوری طرح کارکنان سے رابطے میں ہے یونین کونسل بشندوٹ میں بھی ٹی ایل پی سے وابستہ مذہبی حلقے آمدہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کیلیے خاصے سرگرم ہیں اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ ٹی ایل پی کا مذہبی ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ودائم ہے بلکہ نوجوانوں کی رکنیت سازی سے اسکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے گو یوسی بشندوٹ میں دوبڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک مضبوط ووٹ بینک کیساتھ موجود ہیں تاہم انکے مدمقابل ایسے مذہبی گھرانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر ہے جنکو ماضی میں کوئی ایسا مضبوط مذہبی وسیاسی پلیٹ فارم میسر نہیں آیا جسکی سیاسی چھتری تلے جمع ہوکر وہ اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی آواز بلند کرسکیں لہذا ایسے مذہبی حلقوں کو موجودہ دور میں ٹی ایل پی کی صورت میں ایک منظم مذہبی سیاسی پلیٹ فورم مل گیا ہے جسکا وہ ایک لمبے عرصے سے متلاشی تھے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ٹی ایل پی کے ایک مقامی عہدیدار سے معلوم ہوا ہے کہ یوسی بشندوٹ میں تحریک لبیک کے امیدواروں کو ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ہوم ورک مکمل کر لیا گیا ہے تاہم مرکزی شوری کی ہدایات کے مطابق فی الحال انکے ناموں کی شناخت ظاہر کرنے اور انکی تشہیر کی اجازت نہیں ہے مگر عنقریب اس حوالے سے باقاعدہ ایک کنونشن منعقد کیا جائے گا جس میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ناموں کا مرکزی شوری باضابطہ اعلان کرے گی جسکے بعد ڈور ٹو ڈور عوامی رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔یاد رہے 2018کے عام انتخابات کے موقعہ پر پوری یونین کونسل بشندوٹ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار صداقت علی عباسی نے3468 جبکہ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان نے2447 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ یوسی کے ہر پولنگ اسٹیشن سے ٹی ایل پی کے ووٹ بھی برآمد ہوئے تھے چونکہ ٹی ایل پی کو پڑنے والے ووٹرز کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا جسکی وجہ سے شاہد خاقان عباسی کے ووٹوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں