تحریک انصاف کے کارکن کم لیڈز زیادہ

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور وطن عزیز کی سیاست کا تو مزاج ہی نرالا ہے یہاں کی سیاست دن کو کچھ شام کو کچھ اور صبح کو کچھ ہوتی ہے پورے ملک میں سیاست میں اس وقت ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے اور حلقہ بندیوں کے شور شرابے میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی اسطاعت کے مطابق ریس لگا رہی ہیں لیکن اس وقت کی فضا تحریک انصاف کے حق میں بنتی دکھائی دے رہی ہے اور سب سے زیادہ ریس کے کھلاڑی اسی کے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کھلاڑی واقع ہی ریس کے قابل ہیں یا صرف ٹوٹل پورا کیا جا رہا ہے اس پر ایک نظر پی پی 7میں اس وقت امیدواروں کی ایک لمبی لائن نظر آتی ہے بدقسمتی سے کلرسیداں نے سیاسی ورکر کم اور لیڈران کی ایک کھیپ پیدا کر دی ہے آج ایک نظر تحریک انصاف کے امیدواران پر اس وقت تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جنید شاہ نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ان کی مہم بڑے زور شور سے سوشل میڈیا پر جاری وساری ہے اور آئے دن ان کے بیانات بھی نظر سے گزرتے ہیں لیکن کیا وہ واقع ہی الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیں اگر ہیں تو کیا ان کے مطابق حلقہ کلر سیداں تک ہی محدود ہے لیکن بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ الیکشن شائید حصہ نہ لیں اگر انہوں نے الیکشن میں حصہ لینا ہے تو ان کو کامیابی کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا بصورت دیگر جو حالات ہیں وہ اپنی ضمانت بھی ضبط کر والیں گے ،اسی حلقہ سے سینئر رہنماء ہارون کمال ہاشمی بھی میدان میں موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن اس الیکشن کے بعد وہ حلقہ سے تو غائب ہوگے ہیں لیکن پارٹی کے اہم عہدوں پر فائض رہے ہیں پارٹی کے عہدوں پر کام کرنا اور عوامی نمائندہ منتخب ہونا دو الگ الگ سی باتیں ہیں لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کا گراونڈ پر ورک بالکل زیرو ہے اور گزشتہ الیکشن کے بعد جہاں ان کو اپنے حلقہ کی عوام کے ساتھ ہونا تھا وہ مکمل غائب رہے اور بدقستی سے اگر انہوں نے کسی جلسے جلوس میں شرکت کی تو وہ کلر سیداں میں تحریک انصاف کو اکھٹا نہ کر سکے اور چندگاڑیوں کے علاوہ کوئی بھی ان کے ساتھ نہ جاسکا عوامی رائے کا کہنا ہے کہا اگر ان کو ٹکٹ دیا جاتا ہے یا وہ اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کر کے ٹکٹ لے بھی لیتے ہیں تو ان کا الیکشن یقیناًمشکل ہو گا اور وہ اپنے پچھلے الیکشن میں حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی شائید حاصل نہ کر پائیں اب ایک نظرملک سہیل اشرف کی سیاست پرکلرسیداں کی سیاست میں مسٹر کلین کالقب حاصل کرنے والے ملک سہیل اشرف اس وقت سب امیدواروں سے بالا تر دکھائی دیتے ہیں جب ان کو تحصیل صدر بنایا گیا تھا تو ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں انہوں نے پورے کلرسیداں سمیت ملحقہ یوسیز میں تنظیمی باڈیز کی تشکیل کردی تھی اسلام آباد میں جب بھی تحریک انصاف کا کوئی فنگشن ہوا ملک سہیل اشرف نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ کلرسیداں کی جانب سے تحریک انصاف کی مکمل نمائندگی کی اس وقت ان کا گراونڈ ورک دوسرے تما ٹکٹ ہولڈرز سے زیادہ ہے وہ اس وقت شائید واحد لیڈر ہیں جن کو عوامی حلقوں کی جانب سے بھی پزیرائی حاصل ہے تو دوسری طر ف تحریک انصاف کے ورکرز یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ جس کا ٹکٹ اس کا ووٹ کیا وہ یہ چاہیں گے کہ کام کرنے والوں کے بجائے کسی ایسے نمائندے کو ان پر مسلط کر دیا جائے جو ان کے مسائل کو حل نہ کر سکتا ہو اس کے علاوہ کہوٹہ سے بھی امیدواران آنے ہیں لیکن اگر کلرسیداں کی عوام نے اس موقع سے فائدہ نہ لیا تو یقیناًان کو موقع نہیں ملے گاوہ چاہے تحریک انصاف سے ہو یا کسی اور پارٹی سے عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے کلرسیداں سے ہی کسی کا انتخاب کرنا ہوگا،اب ایک رخ پی پی10 کا جہاں پر بھی امیدواروں کاایک ہجوم ہے اس وقت پڑیال سے تعلق رکھنے والے پی پی10سے چوہدی افضل بھی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں لیکن وہ بھی خاموشی کا شکار ہیں پتہ نہیں انہوں نے کون سے الیکشن میں حصہ لینا ہے کیونکہ اگر انہوں نے موجودہ الیکشن میں حصہ لینا ہوتا تو اب تک گراونڈ میں کام شروع کر دیتے لیکن ان کا الیکشن اعلان تک ہی محدود ہے اس کے بعد راجہ عبدالوحید قاسم ہیں جو کافی عرصہ سے میدان میں ہیں اور ان کا نعرہ ہے کہ روات سے ملحقہ 9یوسیز کی عوام کا ہے لیکن ان کی سیاست بدقسمتی سے اب تک کافی تنازعات کا شکار رہی ہے لیکن وہ بھی پرامید ہیں ،چند ماہ قبل آذاد حثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرنے والے حسیب کیانی بھی اب تحریک انصاف کے کارواں کاحصہ بننے کے چکروں میں ہیں انہوں نے اب تو باقاعدہ طور پر تحریک انصاف کے کارکنان سے میٹنگز شروع کر دی ہیں ،انہوں نے ٹکٹ کے حوالہ سے کوششیں شروع کر دی ہیں اوراگر وہ ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پارٹی کے اندر سے ہی ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور راجہ عبدالوحید قاسم آزادحشیت سے ان کے مدمقابل ہون گے اس کے علاوہ گزشتہ کئی سالوں سے تحریک انصاف کے لیے دن رات ایک کرنے والے چوہدری امیر افضل بھی ٹکٹ کی اس دوڑ میں شامل ہیں اگر پارٹی ان کو ٹکٹ دے دیتی ہے تو جہاں ان کا مقابلہ دوسری پارٹیوں کے امیدواران سے گا وہاں ان کو پارٹی کے اندر سے بھی ایک مخالف ٹولے کا سامنا کر نا پڑے گا ،ایک بات تو واضع ہے کہ اگر تحریک انصاف کی قیادت نے ورکرز اور زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ٹکٹ جاری کیے تو شائید وہ الیکشن جیت جائیں گے لیکن سیاست میں وہ اپنی ناکامی کی بنیاد ضرور رکھ دیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں