تحریک انصاف کے ٹکٹ کیلئے امیدواروں کی دوڑیں

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
پی پی 10 سے الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کے سیاسی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو چوہدری افضل آف پڑیال اس وقت تحریک انصاف کے ٹکٹ کے متمنی ہیں ان کا دیرینہ تعلق غلام سرور خان گروپ سے ہے اور موجودہ حلقہ بندیوں کے بعد ان کو پی پی10میں شامل کر دیا ہے بلدیاتی الیکشن میں وہ اس حلقہ میں موجود نہیں تھے لیکن ان کا کام تحریک انصاف اور غلام سرور خان گروپ کے لیے تھابہر صورت وہ ایک سیاسی ورکر کی حثیت سے کام کرتے رہے ہیں بلکہ اب بھی میدان میں موجود ہیں لیکن موجودہ حلقہ بندیوں کے بعد اس حلقہ سے الیکشن لڑنا ان لیے کافی مشکل ہو گا کیونکہ ابھی تک تو انہوں نے گراونڈ لیول پر کھل کر کام شروع نہیں کیا ہے اور اگر ان کو پارٹی ٹکٹ دے بھی دیتی ہے ہے تو ان کو دن رات ایک کر کے کام کرنا ہوگا جبکہ راجہ عبدالوحید قاسم نے ایم پی اے کی مہم گزشتہ چار سال سے شروع کر رکھی ہے، اس وقت ان کی ساری بھاگ دوڑ ٹکٹ کے لیے ہے ان کے پاس ایک نعرہ کہ روات کی یوسیز کو ان کا حق کیوں نہیں دیا جاتا کو کافی پزیرائی حاصل ہے ، یوسی بگا شیخاں سیتعلق رکھنے والے راجہ حسیب کیانی نے گزشتہ روز بنی گالامیں عمران خان سے ملاقات کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے پارٹی سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کیا ہے حسیب کیانی کا تعلق بزنس کمیونٹی سے ہے اور ان کا زیادہ تر وقت کراچی میں گزرا ہے کیا وہ آمدہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اگر کامیابی کی شرط تحریک انصاف کا ٹکٹ ہے تو بھی ان کو جیت کے لیے دن رات ایک کرنا ہوگا گا لیکن انہوں نے تحریک انصاف کے مقامی گروپس کے ساتھ میٹنگز کے علاوہ ابھی تک مقامی سطح پرکسی بھی کارنر میٹنگ میں انہوں نے شرکت نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ اپنے طور پر انہوں نے عوام سے تعارف کے لیے کسی میٹنگ کا انعقاد کیا ہے اوراگر انہوں نے الیکشن لڑنا ہے تو ان کو مقامی کمیونٹی اور عوام سے رابطے کے لیے ایسی چند میٹنگز کا انعقاد کر نا ہوگا جس سے لوگ ان کو براہ راست پہچان سکیں ابھی تک ان کی الیکشن مہم کا زیادہ زور سوشل میڈیا تک ہے اور وہاں ان سے سوال جواب کرنے والے رہی ہیں جن سے ان کی جان پہچان ہے 500لائیک حاصل کر کے خوشی کا اظہار کرنے سے بہتر ہے کہ وہ گراونڈ پر کام کر کے تین سو ایسے ووٹروں سے ملیں جن سے ان کو الیکشن میں فائدہ ہو سکتا ہے، جھٹہ ہتھیال سے ملک بدر زمان بھی میدان میں موجود ہیں انہوں نے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے انہوں نے سیاست میں اپنا کام آج سے دس سال پہلے یوتھ کے پلیٹ فارم سے شروع کیا تھا اور وہ اس وقت سے تحریک انصاف کے ساتھ کام کر رہے ہیں انہوں نے یوتھ کے حوالہ سے کافی کام کیا ہے اور پارٹی میں ایک نام بنایا ہے انہوں نے پارٹی کے ٹکٹ پر بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیک اور اب برادری اور دوستوں سے مشاورت سے انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور پارٹی ٹکٹ کے لیے بھی اپلائی کیا ہے اب ایک نظر چوہدری امیر افضل پر جن پر اس وقت پارٹی کی نگائیں ہیں انہوں نے گزشتہ بلدیاتی الیکشنوں میں پانچ یوسیز کے امیدواران کو نہ صرف میدان عمل میں لایا بلکہ ان کی کامیابی کے لیے بھی دن رات ایک کیا لیکن ایک مشہو رمعقولہ ہے کی بلدیاتی الیکشن میں کامیابی ہمیشہ سے ہی حکومتی پارٹی کو ملتی ہے انہوں نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے حلقہ بندیوں سے پہلے ان کوملک سہیل اشرف کے سخت چیلنج کا سامنا تھا لیکن موجودہ حلقہ بندیوں نے ان کے لیے راہ ہموار کر دی ہے اور وہ اس وقت ٹکٹ کے حوالہ سے سب سے مضبوط امیدواروں میں سے ہیں،چوہدری امیر افضل یا کوئی بھی اور امیدوار ہو ان کو ایک بات زہن میں رکھنی ہوگی کہ ان کو دوسری پارٹیوں کے امیدواران کے ساتھ ساتھ اپنے ان دوستوں سے بھی مقابلہ کرنا ہوگا جن کو ٹکٹ نہیں ملا ہو گا اور یہ لوگ پارٹی کے لیے بقول میاں نواز شریف خلائی مخلوق ثابت ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ کرنل رب نواز،سابق چیئرمین آف رنوترہ تاج کے علاوہ پیرنصیر شاہ کا نام بھی امیدواران کی فہرست میں گونج رہا ہے یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمران خان نے چوہدری نثار کے حوالہ سے اعلان کر کھا ہے کہ وہ جس بھی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیں گے ان کو سپورٹ کی جائے گی پی پی10سے چوہدری نثار علی خان نے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے اگر عمران خان ان کو ریلیف دیتے ہیں اور ان کے مقابلہ میں امیدوار کھڑا نہیں کیا جاتا ہے تو کیا اتنے امیدواروں سے درخواستیں اس لیے وصول کی گئیں کہ ان سے فیس کی مد میں پیسے لیکرپارٹی فنڈزمیں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے تو کیا کوئی ایسا امیدوار بھی ہے جوپارٹی چیئرمین کے اس فیصلے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر سکے گا کیونکہ اس وقت ان کی الیکش مہم میں چوہدری نثار اور ان کے کار خاصوں کے خلاف ایک آواز ہے جو انہوں نے بلند کی اگر تحریک انصاف چوہدری نثار علی خان کو سپورٹ کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے وہ لیڈر جو تھانہ کچہری،اور پٹواری ازم کے خلاف باتیں کرتے تھے وہ سب غلط تھے یا پھر ان کی خاموشی حلقہ کی عوام کے ساتھ مذاق ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں