تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن نظر انداز

آصف شاہ نمائندہ پنڈی پوسٹ
کارکنان سیاسی جماعتوں کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی کامیابی میں اہم کردار دن رات محنت کرنے والے کارکنوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں کارکنان کے مشورہ پر عمل کرنے کے بجائے اپنے سیاسی فائدے کو زیادہ اہمیت دیتی نظر آتی ہیں اور شکست ان کے سامنے منڈلانے لگتی ہے تو ان کو کارکنوں کی یاد آجاتی ہے اور ایک بار پھر وہ اپنے کارکنان کو وقتی خوش کرنے کے لیے سیاسی تماشے شروع کر دیتے ہیں ہمارے ملک کی سیاست نظریاتی کے بجائے مورورثی بنتی جارہی ہے گزشتہ ہفتہ لوہدراں میں ہونے والے ضمنی الیکشنوں میں تحریک انصاف کے جیتنے کی خوش فہمی دور ہو گی ہے اس کے کیا محرکات تھے کہ کامیابی ناکامی میں بدل گئی عوامی حلقوں میں اس کو ایک خاص نظر سے دیکھا جا رہا ہے الیکشن اور اضمنی الیکشن میں ناکامی کی وجوہات جو سامنے آتی ہیں ان پر ایک نظر ڈالی جائے توپی ٹی آئی کی موجودہ پالیسی شہری سیاسی کلچر کے تناظر میں مناسب ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے پی ٹی آئی کا پیغام کارکنوں تک باآسانی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی 65%آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے اور سوشل میڈیا کی سہولت محدود علاقوں میں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کا کلچر شہری مصروفیت بھری زندگی سے مختلف ہے۔دیہی علاقوں میں عوام سے براہِ راست رابطہ اور تعلق ہی سیاسی سطح پر عوامی تعاون اور کامیابی کا ضامن ہے2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے نمائندوں کو شہری حلقوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی لیکن دیہی علاقوں میں ناکامی ہی مجموعی ناکامی کا سبب بنی۔پاکستان کے اکثریتی آبادی کے حامل دیہی علاقے جہاں دیگر روایتی سیاسی پارٹیوں کے نمائندے کچھ حد تک رسائی رکھتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے نمائندے مضبوط انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے یا پارٹی پالیسی میں دیہی علاقوں کیلئے مناسب حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے عوام سے براہِ راست رابطہ استوار کرنے سے قاصر ہیں جو پی ٹی آئی کی الیکشن میں ناکامی کی اہم اور بنیادی وجہ ہے۔ دوسرا اہم نقطہ پارٹی عہدوں اور زمہ داریوں کی بندر بانٹ میں پی ٹی آئی کے لا تعداد مخلص اور بے لوث کارکنوں کی خدمات کو نظر انداز کرکے چمچہ گیری کرنے والے، روایتی سیاسی پارٹیوں کے نقش قدم پر چلنے والے اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے منظور نظر افراد کو عہدے دینا ہے۔نمائندوں اور عہدیداروں کی تقرری کے لئے کوئی پیمانہ مقرر نہیں جس سے ان کی کارکردگی، عوامی سطح پر ان کی مقبولیت اور عوام کیلئے ان کی خدمات کا جذبہ مد نظر رکھا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاسی جماعتوں سے بددل عوام پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے روایتی سیاسی طریقوں میں فرق سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں الیکشن میں ناکامی کے بعد نمائندوں اور عہدیداروں کا عوام سے براہِ راست رابطہ نہ کرنا پی ٹی آئی کے کارکنوں میں مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔دوسری طرف الیکشنوں میں ناکامی کا ایسا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس پر قابو پانے کے لیے تحریک انصاف کو سخت محنت کی کوشش کرنا ہو گی پوٹھوار ٹاون کی موجودہ صدر ساجد قریشی اور جنرل سیکر ٹری چوہدری نذیر کی ہی مثال لے لیجیے جنہوں نے پارٹی میں اپنی قابلیت کو دکھانے کے لیے ہر یوسی میں ایک آئے روز ایک تنظیمی باڈی کو تشکیل دیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اس کام میں ،،آگے آگے دوڑ پیچھے تڑٹی چوڑ،، والا حساب کیا ہوا ہے یوسی ساگری میں نوٹفکیشن کے بعد کے حالات سے سبق سیکھنے کے بجائے اسی چیز کو انہوں نے اب یوسی دھندہ میں اس کو عمل در آمد کر واکے میں نہ مانوں کی روش کو جاری رکھا ہے یوسی دھندہ نامزد کے جانے والے یوسی صدر پر الزامات ہیں کہ اس کا تعلق ن لیگ سے ہے اور وہ چوہدری نثار کے حالیہ جلسوں وہ بھر پور طریقہ سے شمولیت بھی کرتے نظر آتے ہیں اور اس یوسی سے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنان یہ الزام لگاتے نظر آتے ہیں کہ جن لوگوں کو یوسی سطح پر پارٹی کے عہدوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہ اس پارٹی سے تعلق ہی نہیں رکھتے ہیں اور ان کو عہدے کس خوشی میں دیے جارہے ہیں دیرینہ ورکرز یہ بات بھی برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کو عہدے کس نے دلوائے ہیں ان کو سامنے آنا چاہیے لیکن موجودہ اور مقامی قیادتوں نے اس پر مکمل چپ سادھ رکھی ہے دوسری طرف مقامی کارکنوں کی قیادت نے جب نہ سنی تو انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور اس حوالہ سے وہ کرنل اجمل صابر راجہ،راجہ ساجد جاوید،چوہدری امیر افضل سے پرزور مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان معاملات کو دیکھا جائے لیکن ابھی تک اس پر کوئی حرکت نظر نہیں آتی ہے اگر اس حلقہ سے الیکشن لڑنے والے امتوقع امیدواروں نے ان مسائل کی جانب اب توجہ نہ دی تو آنے والے الیکشنوں میں ان کے لیے یہ حلقے ایک ڈارونا خواب ثابت ہونگے اور گزشتہ برس حاصل کیے گے ووٹوں کی گنتی میں کمی ہو سکتی ہے دوسری جانب عامر کیانی کے ساتھ موجود قیادت اور بالخصوص ضلع راولپنڈی کی مقامی قیادت ان کو عہدیداران کے حوالہ سے مقامی قیادت سے رائے ضرور لینی چاہیے لیکن اگر وہ فیصلے کرنے کے بجائے فیصلے ٹھونستے رہے تو یقیناًانکو چکوال اور لوہدراں جیسے نتائج ملتے رہے گے ،پوٹھوار ٹاون کے عہدیداران ساجد قریشی اور چوہدری نذیر کو چاہیے کہ وہ جس یوسی میں بھی باڈی تشکیل دیتے ہیں ان کو وہاں کے کارکنان کو اعتماد میں لینا چاہیے ان کو سوشل میڈیا اور فوٹوسیشن سے ہٹ کر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کام کرنا ہو گااور اس حلقہ سے الیکشن لڑنے والوں کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا بصورت دیگر وہ پارٹی کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہونگے جو اپنے لشکر میں رہ کر اسے ہی روند ڈالیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں