تحریک انصاف میں اختلافات سامنے آگئے

آصف شاہ،پنڈی پوسٹ
گزشتہ ہفتے یوسی بگا شیخاں میں صداقت عباسی کی جانب سے ورکرز کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے حوالہ سے کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک انصاف کے ورکرز کے مسائل تو حل نہ ہوئے لیکن ان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگے کھلی کچہری سیاسی جلسوں کی طرح حسب روایات کم بیش چار گھنٹے لیٹ شروع ہوئی آغاز میں ہی راجہ عبد الوحید قاسم نے کہا کہ یہاں پر یوسی لوہدرہ سے ایک دھڑا موجود ہے جو کرنل ظفر ملک اور ان کی اہلیہ کو دو عہدے دینے پر سراپا احتجاج ہے،آج کی اس کھلی کچہری کے حوالہ سے بھی تحریک انصاف کے ورکرز کو فون کال کر کے منع کیا جاتارہا کہ وہ نہ جائیں جس پر سابق چیئرمین راجہ پرویز،ٹھیکدار نثار،چوہدری کامران اور رمیض راجہ ایڈوکیٹ اور ان کے ساتھ آئے ہوئے گروپ نے احتجاج ریکارڈ کرایا جس پر صداقت عباسی نے کہا کہ یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے جس کو کمرے میں بیٹھ کر ڈسکس کریں گے اس کے بعد کھلی کچہری میں صداقت عباسی کے خطاب نے اس کو کارنر میٹنگ میں بدل ڈالاانہوں نے ایک بار پھر حسب روایات الیکشن کے دنوں کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی تقریر کے دوران وہ شائید یہ بات بھول گئے تھے کہ وہ منتخب ہو چکے ہیں اور اب نعرے اور تقریرں نہیں بلکہ عوام کو کچھ ڈیلیور کرنا ہے،اس کچہری کا پس منظر دو ڈھڑوں کا ٹکراو تھا جس کے لیے باقاعدہ یوسی لوہدرہ راجہ پرویز کے دھڑے کی جانب سے ایک دستخطی مہم سے کیا گیا،جو تاحال اپنی جگہ موجود ہے، اس کچہری کی سب سے بڑی ناکامی یہی تھی کہ ایک دھڑے نے احتجاج اس میں شرکت نہ کر کے کہ دیا کہ جس جگہ یہ کچہری منقعد کی جا رہی ہے اس آفس کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہ ہے اور ان کے نزدیک اس کھلی کچہری کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے،صداقت عباسی کے سامنے رکھے گئے بیشتر پوائنٹ جو پٹواریوں اور پولیس کی چیرہ دستیوں کے تھے کو انہوں نے ڈی سی اور ایس پی کے زمہ داری پر ڈالا اور کہا کہ یہ ان کا کام ہے اور اگلی کھلی کچہری میں وہ جوابدہ ہوں گے جبکہ وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے انگلیینڈ روانہ ہو رہے ہیں،دوسری جانب انہوں نے ایک بار پھر عوام کے سامنے کمیٹیوں کو تمام کاموں کا زمہ دیتے ہوئے اپنی تمام زمہ داریوں سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کیا،کمیٹیوں کے ہیڈز اور ممبران کی شنوائی کیا ہے سوائے چند کے یہ کوئی ان سے پوچھ لے وہ بیچارے کسی شعبہ میں چلے جائیں تو ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا سامنہ لیکر آجاتے ہیں،اور کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف قانو گو ساگری کی عوام کو تاحال فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا رو کر لولی پاپ دیا جاتا ہے جبکہ اسی حلقہ میں راجہ صغیر اور خود صداقت علی عباسی مختلف منصوبوں پر کروڑوں کی تختیاں لگاتے نظر آتے ہیں اس قانو گو کی عوام کے لیے کیا فنڈز کسی اور سیارے سے آنے ہیں ترقیاتی کمیٹیوں کے ہیڈز اب اپنی عوام سے جن کو انہوں نے ووٹ دینے کو کہا تھا ان سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ کب تک حلقہ میں آئے روز کے افتتاح کے فنڈز کہاں سے آرہے ہیں کلر اور قانو گو ساگری کے لیے علیحدہ پالیسی کیوں،اگر اس پالیسی کو ٹھیک نہ کیا گیا تو یقینا بلدیاتی الیکشن میں مقامی نمائندوں کا دھڑن تختہ ہوگا جناب کی موجودہ سیاست اور کمیٹی گیم پر ایک کہانی یاد آگئی کہ کسی علاقہ کے ایک وڈیرے نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا رفو گرمطلب پرانے کپڑوں کو تھیک کرنے والا۔ وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ وڈیرے کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ عوام سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی وڈیرا سائیں نے صحیح فرمایاایک دن وڈیرا کھلی کچہری لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر عوام کو مرعوب کر رہے تھاکہ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگاوڈیرے کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ عوام وڈیرے کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے وہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا۔ دراصل وڈیرہ سائیں ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلومیٹرکہاں جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا اس لیے اس کو تیر لگ گیاسادی عوام نے زور زور سے تالیاں بجانے لگی اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا۔ وڈیرہ پریشان ہوگیا۔ پوچھا کہاں چلے۔ رفوگر بولا سائیں میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں شامیانے نہیں سی سکتا ایسے ہی کچھ حالات اس وقت حلقہ کے ہیں جہاں پر میں ہر یوسی میں ایک رفو گر موجود ہے جو صداقت عباسی کی ہر بات پر سر دھنناء اور واہ واہ کرنا فرض سمجھتے ہیں لیکن آخر کب تک اب عوام ان رفو گروں کے چکر میں نہیں آنے والی،بقول سینئر ارشاد صحافی بھٹی کہ آپ بھی چالاک ہوگئے ہیں،لیکن کب تک؟

اپنا تبصرہ بھیجیں