تحریک اسلامی طالبان

جنیوا مذاکرات میں پاکستان نے بار بار مطالبہ کیا تھا کہ سوویت فوجوں کی واپسی سے پہلے لازماً عبوری حکومت قائم کی جائے اور ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے لیکن دونوں باتیں نہیں مانی گئیں یہ انجانے میں ہوا یا جان بوجھ کر کیا گیا البتہ اس کا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑا کہ قوم کے بہی خواہ ہی اپنی انا اور نشہ اقتدار میں مست آپس میں ہی گتھم گتھا ہو گئے اور اپنی قوم کے خون کو بے قدر و قیمت جان کر پانی کی طرح بہانے لگے مدارس کے چند طلباء نے آپس میں مشاورت کے بعد قوم کو اس قتل و غارتگری سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا انھوں نے مختلف مدارس کا دورہ کر کے دیگر طلباء کو اس مقصد کے لیے تیار کیا ان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے ملا محمد عمر نے 1994 میں تحریک اسلامی طالبان کی بنیاد رکھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس فکر کے پیچھے سابق وزیر داخلہ پاکستان جنرل نصیر اللہ بابر ہیں جنہوں نے علماء کرام سے رابطہ کر کے اس کام کے لیے ان کی ذہین سازی کی تھی 1994 میں ہی انہوں نے متحارب گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کا آغاز کر دیا اور 1996 میں کابل پر قبضہ کر کیاسلامی امارت افغانستان کے نام سے حکومت قائم کی جس تیزی کے ساتھ انہوں نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کیا اس سے معلوہوتا ہے کہ افغان عوام نے ان کو حقیقتاً نجات دہندہ سمجھتے تھے ملا محمد عمر امیر المومنین بنے جنہوں نے اس جدوجہد کو شروع کیا تھا ان کا دور حکومت 2001 تک رہاان کی حکومت کو صرف پاکستان اور سعودی عرب نے ہی تسلیم کیا تھا انہوں نے افغانستان کی باگ ڈور اس وقت سنبھالی جب افغانستان پندرہ سالہ جنگ کے نتیجے میں تباہ و بربادہو کر کھنڈرات کا منظر پیش کرتا تھا ساری قوم ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو چکی تھی ہر طرف لاشیں،کھنڈرات، پرانے اور ناکارہ ہتھیار نظر آتے تھے ان کی کارکردگی پر بڑے سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن سوال کرنے سے پہلے ہمیں ان باتوں پر غور کرنا پڑے گا آیا جن لوگوں نے پانچ چھ سال حکومت کی کیا ان لوگوں کو اس کا پہلے موقع مل چکا تھا یا ان کو تجربہ کار افراد کی مدد حاصل تھی کیا وہ اپنے اپنے شعبہ میں ماہراور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے یا اپنے شعبہ کے ماہرین کی ٹیم ان کی معاون تھی یا وہ بیوروکریٹ تھے کیا وہ ذہنی طور پر میچور تھے یعنی عمر رسیدہ تھے کیونکہ انسان تجربہ سے بہت کچھ سیکھتا ہے ان سارے سوالوں کا جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ یہ تو محض دینی مدارس کے طلباء تھے جن کی اس وقت عمریں بمشکل بیس بائیس سال تھیں کوئی ان میں زیادہ عمر کا تھا تو تیس سال کا ہو گا نہ ہی پروفیشنل تعلیم نہ تجربہ نہ پروفیشنل ٹیم کی مدد حاصل سب سے بڑھ کر پاکستان اور سعودی عرب کے علاؤہ کسی ملک کی مدد بھی حاصل نہیں اس کے باوجود انہوں نے چند سالوں میں امن وامان قائم کر دیا بکھری ہوئی قوم کو کافی حد تک متحد کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ملک کی ناگفتہ بہ حالت کو بھی کافی حد تک سنوار دیا معیشت کی حالت صفرہونے کے باوجود یہ تمام کام کئے انصاف کی فوری فراہمی ان سے بہت ہی فاش غلطیاں ہوئیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جیسے بچیوں کی تعلیم پر پابندی،ٹی وی پر مستقل بین،حد سے زیادہ سختی وغیرہ شاید وہ ان غلطیوں سے بچ جاتے اگر وہ منصوبہ بندی کے تحت حکومت حاصل کرتے اور اچھی تعلیم یافتہ ٹیم کی مشاورت حاصل ہوتی کچھ وقت اور ملتا تو بھی ممکن تھا کہ وہ ان غلطیوں کی اصلاح کرتے کیونکہ وقت و تجربے کے ساتھ انسان کے نظریات بدل جاتے جیسے ہما رے ملک کی ایک بہت بڑی دینی جماعت ہے ایک وقت ایسا تھا جب ان کے نزدیک ٹی وی حرام تھا جب ان پر اس کی افادیت واضح ہوئی تو آج ان کا اپنا ٹی وی چینل ہے جس پر تعلیمی و اصلاحی پروگرام نشرہوتے ہیں پھر حالات نے پلٹا کھایا اور نائن
الیون کے واقعہ کی ساری ذمہ داری القاعدہ پر ڈال دی گئی القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن جو اس وقت افغانستان میں تھے امریکہ نے طالبان سے ان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا طالبان نے صاف انکار کردیا نتیجتاً سات اکتوبر 2001 کو امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا اور انیس اکتوبر 2001 کو زمینی فوج بھی اتار دی 13 نومبر دو ہزار ایک کو کابل پر قبضہ کرلیا اور سات دسمبر کو قندھار پر قبضہ 22 دسمبر 2001 کو حامد کرزئی کو افغانستان کا عبوری صدر نامزد کردیا گیا 7 اکتوبر2001 سے 2018 تک مسلسل افغانستان کو فتح کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن طالبان کی ہمت جوش وجذبے کو سلام کرنا پڑے گا جنھوں نے نہ صرف دنیا کی سپر پاور بلکہ اس کے 56 اتحادیوں کو جن میں اکثر ترقی یافتہ ممالک ہیں کی فوج کو شکست سے دو چار کر دیا جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی آخر کار ان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہی پڑے 28جولائی 2018 کو باقاعدہ طالبان و امریکہ میں مذاکرات کا آغاز ہوا اور 29 فروری 2020 کو مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تقریباً 2 ٹریلین ڈالر بارود کی آگ میں جھونک کر لاکھوں لوگوں کے ناحق خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد بلاآخر امریکہ و اس کے اتحادیوں کو اپنی شکست تسلیم کر کے ناکام ونامراد واپس جانا پڑا طالبان اپنی ثابت قدمی سے کامیاب ہوئے اسی جنگ کے دوران ملا محمد عمر اور ان کے جانشین ملا اختر منصور نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا اب طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخند زادہ ہیں جو اس وقت ساٹھ سال کے ہیں اس وقت تحریک اسلامی طالبان نے تقریباً اسی سے نوے فیصد ملک پر قبضہ حاصل کر لیا ہے جو لچکدار رویہ،جرات،گفتگو میں پختگی اور میچورٹی انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں دیکھائی ہے اس سے اندازہ ہوتا کہ اب انہوں نے بہت کچھ سیکھا لیا ہے اب ان کی حکومت پہلے سے بہت مختلف ہو گی اور وہ پہلی غلطیوں کو دہرائیں گے نہیں بلکہ ان کا ازالہ کریں گے اور دنیا کے سامنے پرامن،مہذب، شائستہ، ماڈریٹ دین اسلام کی تصویر پیش کریں گے کیونکہ انہوں نے ان بیس سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں