تحریک آزادی میں صحافت کا کردار

محمد شہزاد نقشبندی /اٹھارہ سو ستاون (1857)کی جنگ آزادی بلا شک و شبہ برصغیر کی تمام اقوام نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا تفریق مذہب رنگ و نسل ذات پات کے لڑی لیکن بدقسمتی سے اہلیان برصغیر کو اس جنگ آزادی میں ہار کا سامنا کرنا پڑا اور بچے کچھے اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اس کے بعد انگریز برصغیر پاک وہند کے بلا شرکت غیرے سیاہ و سفید کے مالک و مختار بن گئے اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا کیونکہ مسلمانوں کا ھزار سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا وہ حاکم سے محکوم ھی نہیں بنے تھے بلکہ اب غلامی اور ذلت ان کا مقدر ٹھہری تھی پورے برصغیر کے عوام کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص بڑے ہی کٹھن دور کا آغاز ہوا وہ اپنے ھی خطہ زمین پر بدیسیوں کے غلام بن گئےانگریز کا برصغیر میں سب سے بڑا دشمن مسلمان تھے کیونکہ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اور دوسرا ہندو بنیا اپنی روایتی مکاری کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریز کو باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی صرف اور صرف مسلمانوں نے لڑی تھی اس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا اس لیے انگریزوں کے ظلم و ستم کا اصل نشانہ مسلمان تھے جوں جوں انگریزوں کی اقتدار پر گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ویسے ہی مسلمان پر ظلم و ستم،قتل وغارت گری، جائیدادوں کی لوٹ مار ،ملازمتوں اور تعلیم کے دروازے بند ھوتے گئے حقارت و نفرت ان کا مقدر بن گئی یعنی مسلمان قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا پھر کچھ ہمدردان ملت نے مسلمانوں کو گہری نیند سے جگانے کا بیڑا اٹھایا تو ان کی جذبہ حریت، بحالی ملت کی فکر ، پھر سے رخت سفر باندھنے کاپیغام ، اتحاد و اتفاق اور حصولِ آزادی کی تڑپ کو ہر ہر شہر قریہ، بستی، گلی ،محلہ بلکہ گھر گھر تک پہنچانے کا بیڑا صحافت نے اٹھایا ان کے درد ملت اور سوچ و فکر کو اپنے اخبارات میں نمایاں جگہ دی صحافت کی اہمیت ضرورت اور طاقت کو بیان کرتے ہوئے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 23 مئی 1944 کو فرمایا کہ صحافت ایک عظیم طاقت ہے یہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی اگر یہ صحیح طریقہ سے چلائی جائے تو یہ رائے عامہ کی راہنمائی اور ہدایت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور اسی طریقہ سے 12 اکتوبر 1943 کو ڈان اخبار کی پہلی سالگرہ پر قائداعظم نے پیغام دیا قوم کی ترقی اور بہبود کے لئے صحافت ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ زندگی کی تمام سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے صحافت ہی واحد ذریعہ ہے جو قوم کی راہنمائی کرسکتا ہے اردو کے معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے صحافت کی طاقت کا اظہار کچھ یوں کیا کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو۔جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالوبعض اخبارات نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں جذبہ حریت کی آگ کو بھانبڑ بنانے کے لئے تیل کی جگہ استعمال کیا اسی جرم میں ان کو سزائے موت تک دے دی گئی “دھلی اردو”کے مالک مولوی محمد باقر کو شھید کر دیا گیا “پیام آزادی” ایک ایسا اخبار تھا کہ اس کے ایڈیٹر، پرنٹر ،پبلشر سب کو سزائے موت ہی نہ دی گئی بلکہ اس کے پڑھنے والوں کو بھی سزا دی جاتی تھی “صادق اخبار” کے ایڈیٹر جمیل ہجر پر بغاوت کامقدمہ بنایا گیا بعد ازاں سرسید احمد خان پہلے شخص تھے جنہوں نے جنگ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور ان کی عظمت رفتہ کی بحالی کا بیڑہ اٹھایا ہفت روزہ رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس کے ذریعے مسلمانوں کو تعلیم اور سیاست کی طرف ترغیب دلائی جاتی تھی بعد ازاں حسرت موہانی کے اخبار “اردو معلی “اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار “زمیندار ” اور” ستارہ صبح “(زمیندار کی بندش کے وقت شائع کیا)مسلمانوں کے اندر انقلابی نظموں کے ذریعہ جذبہ حریت کو بیدار کرنے اور نثری نشتر کے ذریعے حکومتی چیرہ دستیوں کا پردہ چاک کرتے رہے اسی لئے حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے بارے میں فرمایا تھا مولانا ظفر علی خان کا قلم دین کے بڑے بڑے مجاھدین کی تلوار سے کم نہیں مولانا ابوالکلام آزاد کا ” الہلال” اور اس کی ضبطی کے بعد” البلاغ “اور مولانا محمد علی جوہر کا “ہمدرد” اور “کامریڈ” حمید نظامی کا” نوائے وقت” اور ان جیسے دیگر اخبارات نے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ ، الگ وطن کے حصول کا ولولہ, جوش و جذبہ پیدا کرنے میں بڑا ہی اہم رول ادا کیا اور اسی کی پاداش میں تقریبا سب نے قید و بند ، تشدد اورضمانتیں ضبط کرانے جیسی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور صحافت کی اسی طاقت سے متاثر ہو کر قائد اعظم محمد علی جناح نے 12 اکتوبر 1942 کو ھفت روزہ” ڈان” انگلش زبان میں شائع کرنا شروع کیا1944میں روانہ اشاعت کا آغاز ہوا(موجودہ “ڈیلی ڈان” وھی اخبار ھے جس کو بانی پاکستان نے جاری کیا تھا) ان ھی اخبارات نے اب لے کے رہیں گے آزادی بن کے رہے گا پاکستان پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کو گلی محلوں سے اٹھا کر انگلستان کے ایوانوں تک پہنچا دیا اور انگریزوں کو آزادی دینے پر مجبور کر دیا بلآخر 14 اگست 1947 کو مسلمانوں نے الگ وطن حاصل کر لیا اب میڈیا جو پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ھو چکا اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے استحکام پاکستان کیلئے یکجان ھو کر تحریک آزادی والے جذبے کے ساتھ کام کرے تو میں نہیں سمجھتا کہ ان لٹیروں مفاد پرستوں ملک و ملت کے دشمنوں سے چھٹکارا حاصل نہیں ھو سکتا سوچ صرف یہ ھونی چاہیے کہ ھماری کوئی پارٹی یا شخصیت نہ دوست ھے نہ دشمن صرف اور صرف ہم نے ملک و ملت کو اقبال و قائد کی فکر و نظرئیے کے مطابق عظیم سے عظیم تر بنانا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں