تحصیل انتظامیہ کی لاپرواہی اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ فٹ پاتھ پر تجاوزات سے پیدل چلنا محال ہے جبکہ سڑک پر پارکنگ سے بھی آمدورفت میں خلل پڑتا ہے۔
تاہم تحصیل انتظامیہ کلرسیداں،کہوٹہ اور روات کے حالیہ اقدامات سے بازاروں میں تجاوزات کے خلاف موثر آپریشن کے اشارے مل رہے ہیں
امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کلرسیداں چوکپنڈوڑی کہوٹہ روات میں تجاوزات کے خاتمے کیلئے حتمی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
تاہم ان اقدامات کے طویل المدتی اور تسلسل پر فی الحال کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا گزشتہ ہفتے تحصیل انتظامیہ کی جانب سے کلرسیداں اور چوکپنڈوڑی میں دوکانوں کے آگے لگے شیلٹر کو اتارنے کے احکامات صادر کیے گئے تھے ان احکامات پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے چوکپنڈوڑی کی
تاجربرادری نے بھی مثبت رویہ اپناتے ہوئے اپنی دوکانوں کے آگے لگے شیلٹر اتار دیے تھے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ تاجر برادری بھی انتظامیہ کیساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہوئے
تجاوزات کو ہٹائے جانے کیلئے پرعزم ہے گو بازاروں میں فٹ پاتھوں پر سبزی فروٹ اور سڑک کنارے ریڑھی بانوں نے قبضہ جما رکھا ہے
جس سے پیدل چلنے والوں کیلئے مسائل درپیش ہیں غیر قانونی پارکنگ کی صورت میں سڑک کے اطراف تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور ٹریفک جام روزمرہ معمول بن چکا ہے
جسکی وجہ سے شہریوں کو ذہنی کوفت اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے دوسری طرف شاپس کے سامنے بے ہنگم پارکنگ سے بھی تاجر برادری کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں
تو لہذا تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور خریداروں کی امدورفت میں آسانی کیلئے انتظامیہ کیساتھ مل کر تجاوزات کو ختم کرنا اور ایسے اقدامات کی حمایت کرنا تاجر برادری کی تجارتی سرگرمیوں کیلئے بھی مثبت ثابت ہو گا تاہم ماضی میں بھی بازاروں سے تجاوزات کے خاتمے کیلئے تحصیل انتظامیہ کی پھرتی کے کافی چرچے دیکھنے میں آئے تھے
مگر سیاسی مصلحتوں کی بنا پر یہ اقدامات قلیل الوقتی ثابت ہوئے اور کچھ عرصہ بعد انتظامیہ کی عدم دلچسپی سے دوبارہ تجاوزات قائم ہوئیں یہی وجہ ہے کہ ماضی کے منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاوزات کے خاتمے کے حالیہ حکومتی اقدامات کو عوامی حلقوں میں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا
جا رہا گو تجاوزات کے خاتمے کیلئے انتظامیہ کے اقدامات قابل ستائش ہیں تاہم ایسے حالات میں ریڑھی بان اور دیہاڑی دار رکشہ و سوزوکی ڈرائیور حضرات کا خیال رکھنا ہو گا
انہیں کاروبار زندگی چلانے کیلئے مناسب ماحول اور جگہ مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں شہروں اور بازاروں میں پارکنگ جیسے مسائل کوحل کرنے کیلئے شہر یا بازاروں کے قریب ترین غیر آباد سرکاری اراضی کو بطور پارکنگ کے استعمال کیا جائے
دوسری صورت پرائیویٹ پارکنگ کا آپشن بھی اپنی جگہ موجود ہے تجاوزات کے خاتمے اور پارکنگ کے مسائل کوحل کرنے کیلئے تحصیل انتظامیہ اور تاجر تنظیموں کے نمائندوں کے مابین رابطوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے
تاکہ ان مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے،یوں تو ہمارے معاشرے میں ہر جگہ تجاوزات کی بھرمار ہے شہر ہوں یا دیہات جسکو شہ ملتی ہے وہی تجاوزات قائم کر لیتا ہے جو نہ صرف ملکی قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے
ہمارے ہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ بحثیت فرد یا معاشرہ دوسروں کے حقوق غصب کرنا قابل فخر سمجھا جاتا ہے زمینی معاملات کو اپنے حدود اربعہ اور مالکیت تک محدود رکھنا ایک اچھی خصلت ہے
مگرموجودہ دور میں ایسے اخلاقیات کی پاسداری انہونی بات لگتی ہے شہروں کی نسبت دیہات میں بھی تجاوزات کے حوالے سے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں محکمہ مال کے ریکارڈ میں سرکاری راستے کا ریکارڈ تو دستیاب ہے
مگر موقعہ پر تجاوزات قائم ہیں وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ سے گزارش ہے کہ دیہی سطح پر سرکاری راستوں کی نشاندھی اور تجاوزات ہٹانے کے احکامات صادر فرمائیں تاکہ حکومتی سرپرستی میں سرکاری راستوں کی واگزاری و نشاندھی کیذریعے قبضہ مافیا سے تجاوزات کا خاتمہ ممکن ہو سکے
اور دیہی عوام کو آمدورفت کی سہولیات میسر ہوں محکمہ مال کو تحصیل کی ہر یونین کونسل اور مواضعات میں سرکاری راستوں کے ممکنہ ریکارڈ کو منظرعام پر لانے کے احکامات جاری کیے جائیں اور ان راستوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے کیلئے انتظامیہ عملی اقدامات اٹھائے اگر واقعی حکومت تجاوزات کے خاتمے کیلئے پْرعزم اور سنجیدہ ہے
تو پھر اسکا دائرہ اختیار بڑھانا ہو گا شہروں بازاروں میں تجاوزات کو ختم کرنے کیساتھ غریب کی زمین پر طاقتور کے قبضے کی شکل میں قائم تجاوزات کو بھی ختم کرانے کے حوالے سے ملکی قانون پر عملدرآمد کرانے کیلئے عملی حکومتی اقدامات درکار ہیں جنکا فی الحال فقدان پایا جاتا ہے
چیف سیکرٹری پنجاب کی زیر صدارت تجاوزات کے خلاف موثر آپریشن کیلئے عملی اقدامات کا اعادہ کیا گیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تجاوزات کے خاتمے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے حالیہ اقدامات کا تسلسل جاری رہے گا یا پھر ماضی کی طرح یہ اقدامات ایک مرتبہ پھر طاقتور مافیا کی مداخلت اور سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ جائینگے۔