تجاوزات مافیا سے شہری پریشان

ساجد محمود/ملک کے طول وعرض میں سرکاری زمینوں پر بااثر افراد کیجانب سے تجاوزات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے داخلی راستوں‘شاہراہوں بازاروں اور گلیوں میں تجاوزات کی بھرمار ہے حتی کہ لوگ اپنے گھروں کے سامنے عوام الناس کیلیے ایک انچ بھی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں لاپرواہی بے حسی کی یہ حالت ہے کہ مکانات کا تعمیراتی سامان سڑک پر پھینک کر حادثات کا سامان کیا جاتا ہے حتی کہ زیر تعمیر مکانوں کا کچرہ اور ملبہ راستوں کے درمیان پھینکنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے عام گزرگاہوں اور گھروں کے سامنے کوڑا کرکٹ کی شکل میں تجاوزات قائم کرنا تو عام سی بات ہے شہر اور بازار بھی تجاوزات سے خالی نہیں عوام کا ہر روز راولپنڈی چوکپنڈوڑی کلرسیداں شاہ باغ روات کے بازاروں میں آناجانا لگا رہتا ہے بازاروں میں بھی لاقانونیت کا راج ہے اور قانون شکن کو کوئی پوچھنے والا نہیں سڑک کے دونوں اطراف غیر قانونی پارک شدہ گاڑیوں کی لائنیں لگی رہتی ہیں جس سے نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے بلکہ ٹریفک میں پھنسے بیمار اور ادھیڑ عمر افراد خریدوفروخت کیلیے آنے والے لوگوں اور راہگیروں کو بھی ذہنی وجسمانی اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے جگہ جگہ سڑک کنارے سبزی فروٹ مونگ پھلی اور خشک میوہ جات کی فروخت کی ریڑھیاں سڑک پر لگی ہیں دنیا بھر میں بازاروں میں فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کیلیے مختص ہوتے ہیں تاہم ہمارے ہاں فٹ پاتھ بھی متضاد مقاصد کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں دوکانداروں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے اور فروخت کرنے کی غرض سے مختلف اقسام کی اشیا نمائش کیلیے فٹ پاتھ پر سجا رکھی ہیں جو بازار میں خریدو فروخت کیلیے آنے اور پیدل چلنے والے افراد کیلیے کسی زحمت سے کم نہیں ان مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کیلیے بازاروں میں تشکیل پانے والی نمائشی تاجر تنظیموں کا کردار بھی انتہائی مایوس کن اور کارگردگی غیر موثر ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ طاقتور تجاوزات مافیا اپنی من مانی سرگرمیوں میں بے خوف و خطر ناانصافی کی حدود کو پھلانگتے ہوئے اسقدرآگے نکل گیا ہے کہ اب تو سرکاری راستوں اور قبرستان کیلیے مختص زمین پر قبضہ جمانے اور اپنا غیرحقیقی حق جتانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا آپ میں سے اکثروبیشتر افراد جو زمین کی پیمائش اور نقشے کی مدد سے واقفیت رکھتے ہیں سرکاری راستوں اور قبرستانوں کے اس حدود اربعے سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں جو رقبہ بظاہر تجاوزات کی زد میں آتا ہے قابل افسوس بات یہ ہے ان تجاوزات میں کمی کی بجائے دن بدن مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم اس حوالے سے ایک واقعہ قارئین کی یاد تازہ کرنے کیلیے پیش خدمت ہے جولائی 2019 میں اس وقت کی تعینات اسسٹنٹ کمشنر کلرسیداں امبر گیلانی نے عوامی شکایات پر سرکاری راستے پر تجاوزات کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ مال کلرسیداں کو ہدایات جاری کیں تھیں جس میں کلرسیداں کے نواحی گاوں گیدر میں سو میٹر تجاوز شدہ سرکاری راستے کی زمین کو واگزار کرانے کی غرض سے تحصیلدار وسیم تابش اور گرداور جابر عباسی نے پولیس کی نفری کے ہمراہ موقع پر موثر کاروائی کے زریعے راستہ واگزار کرا لیا تھا یادرہے کئی ماہ سے اس سرکاری راستے کی بندش سے مقامی آبادی کو آمدورفت میں شدید مشکلات درپیش تھیں اس واقعہ سے یہ بات پختہ ثبوت کیساتھ عیاں ہوتی ہے کہ اگر کسی بھی آبادی میں سرکاری راستے کے آثار محکمہ مال کے ریکارڈ اور نقشے کا واضح طور پر مکمل دستاویزی ثبوت کیساتھ اندراج موجود ہو تو وہاں کی آبادی قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے سرکاری راستے کی زمین کو واگزار کرانے کیلیے اسسٹنٹ کمشنر کو اجتماعی طور پر زیردستخطی درخواست دے سکتے ہیں جس پر محکمہ مال کے اہلکار انکی قانونی ہدایت کی روشنی میں ضروری اقدامات اٹھانے کے پابند ہیں کیونکہ محکمہ مال کے پاس سرکاری راستوں اور قبرستان کے حدود اربعے اور سرکاری زمینوں کا مفصل ریکارڈ اور عکس موجود ہیں جنکی مدد سے ان تجاوزات کی نشاندہی کرنا اور انہیں قانونی طریقہ کار سے واگزار کرانا انکے لیے انتہائی آسان کام ہے تاہم اس عمل میں مزید تیزی لانے کی غرض سے کچھ عرصہ قبل موجودہ حکومت نے 1947 کے اندراج لینڈ ریکارڈ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکاری زمینوں کی نشاندہی اور انکے سروے کرانے کی زمہ داری سروے آف پاکستان کے سپرد کی ہے سروے مکمل ہونے پر سرکاری زمینوں‘شاملات‘رفاہ عامہ قبرستان‘ریور لینڈ اور جنگلات کی زمین کی نشاندہی اور مبینہ قابض مافیا کے خلاف بڑا کریک ڈاون متوقع ہے تاہم اس منصوبے کی تکمیل اور عملدرآمد کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ یا ٹائم فرائم نہیں دیا جاسکتا پنجاب میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظامی امور کی انجام دہی کی تاریخ خاصی پرانی ہے جو شیرشاہ سوری سے لے کر انگریز سرکار کے دور اقتدار پر محیط ہے پنجاب میں انگریزوں نے محکمہ مال کا رائج شدہ موجودہ نظام کا خاکہ 1848 میں متعارف کرایا تھا جو کافی حد تک ستر کی دہائی تک خاصہ موثر رہا ہے تاہم اسکے بعد اس میں خامیوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے ہمارے ہاں تو سرکاری راستوں و غیر مالکیتی زمین پر قبضے کا رواج زور پکڑتا جارہا ہے دیہی علاقوں میں وسیع وعریض راستے تنگ وتاریک ہو کر سکڑ گئے ہیں ڈپٹی کمشنر اور ضلعی حکام سے درخواست ہے کہ وہ محکمہ مال کو سرکاری راستوں کی نشاندہی اور قبضہ مافیا سے انہیں واگزار کرانے کیلیے احکامات صادر کرے تاکہ عوام کو آمدورفت میں آسانی پیدا ہو دیہاتوں میں آپسی چپقلش اور دشمنی کے باعث ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف زاتی مالکیتی اراضی کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں بلکہ اسی کشمکش میں بہت سے افراد سرکار کی اراضی پر بھی قابض ہیں جن میں تجاوز شدہ سرکاری گزرگاہیں اور قبرستان بھی شامل ہیں پہلے پہل کھیتوں کی حدبندی کے تعین کو ایمان کی نشانی تصور کیا جاتا تھا تاہم اب صورتحال پہلے کی نسبت قدرے کافی مختلف ہے اب تو اس حدبندیوں کے نشان بھی مٹتے جا رہے ہیں ایک دوسرے کی زمین پر غیرقانونی زبردستی حق جتانا لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے جو میں نہ مانوں والی بات ہے گو ہمارے معاشرے میں تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ اور مذہبی رجحانات کی بدولت عوام میں شعور کی بیداری کے دعووں کا رواج زور پکڑ رہا ہے تاہم یہ علمی سوچ و شعور صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا زریعہ بن چکا ہے تاہم یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ علم وہنر اور جدیدعلوم تک رسائی کے باوجود بھی حق وباطل کے انتخاب میں ہماری زبان لغزش اور مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتی ہے اچھی بات کی ترغیب دینا بھی ایک صدقہ ہے تاہم جب تک عمل کے ذریعے قول وفعل میں یکسانیت نہ ہو تو دوسروں پر اچھی باتوں کا اثر بھی رفتہ رفتہ زائل ہوجاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں