بابراورنگزیب/میونسپل کارپوریشن راولپنڈی اورکنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں تجاوزات مافیا بے قابو 2018 میں ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود جو وقتی طور پر اس حکم کے بعد سے شہر کی خوبصورتی بحال ہونا شروع ہوگئی تھی اور بڑے بڑے پلازے جو بغیر نقشے کے اور سرکاری زمینوں اور روڈ پر قبضہ کر کے بنائے گئے تھے ان سب کے مالکان خوف کا شکار تھے کہ عنقریب انکے پلازوں کو گرا دیا جائے گے کئی پلازہ مالکان کو اس حوالے سے نوٹس بھی ملے اس وقت کی انتظامیہ بھی توہین عدالت کے خوف سے حرکت میں نظر آئی اور آئے روز کئی جگہوں پر آپریشن ہوتا ہوا بھی نظر آیا کئی جگہوں کو قبضہ مافیا سے واگزار بھی کروایا گیا تب لگ یہی رہا تھا کہ اس شہر کی خوبصورتی عنقریب واپس آجائے گی اور پہلے کی طرح سے صاف ستھرا اور خوبصورت شہر راولپنڈی دیکھنے کو ملے گا مگر ایسا دیر پا ہوتا ہوا نظر نہیں آیا شاید یہ خوبصورتی اور صاف ستھرا راولپنڈی یہاں کے باسیوں کو زیادہ دیر تک راس نہیں آیا اور ایک بار پھر سے راولپنڈی شہر کینٹ اور دیہی سطح پر تمام علاقوں میں تجاوزات مافیاء بے قابو ہوچکے ہیں اور تجاوزات پھر سے قائم و دائم ہوچکی ہیں شعبہ انسداد تجاوزات کے بعض کرپٹ افسران و اہلکاروں کی ملی بھگت سے شہر کا معروف بازار و روڈ اڈیالہ روڈ جس کا کچھ حصہ جس میں خواجہ کارپوریشن، نادر سٹریٹ اور مبارک لین شامل ہے کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے جبکہ باقی جس میں دھاماں موڑ، چونگی نمبر 20،علی ٹاون، ڈھوک راجگان،جراہی، کہکشاں کالونی سمیت دیگر علاقے میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آتے ہیں یہ علاقہ اڈیالہ جیل کی وجہ سے دنیا بھر میں منفرد مقام اور نام رکھتا ہے اس کے علاوہ یہاں پر آرمی کا ایک کیمپ بھی موجود ہے جس کی وجہ سے آئے روز اس روڈ پر جیل اور کیمپ کی وجہ وی آئی(باقی صفحہ 3نمبر02)
پی موومنٹ جاری رہتی ہے مگر یہاں کے فٹ پاتھوں اور آدھی سڑکوں پر قبضہ مافیا براجمان ہوگیا ہے روڈ کے دونوں اطراف ریڑھی بانوں نے قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ فٹ پاتھوں پر دوکانداروں نے اپنی اشیاء کے سٹال لگا کر قبضہ جمایا ہوا ہے جس کے سبب نہ صرف ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے خاص طور پر سکول سے چھٹی کے اوقات میں بری طرح ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے بلکہ فٹ پاتھوں پر قبضہ کرنے کے سبب نہ صرف مردوں بالخصوص خواتین اور بچوں کا پیدل چلنا بھی محال ہوچکا ہے اس رش اور بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے کوئی ناخوش گوار واقعہ بھی رونما ہوسکتا ہے تجاوزات و قبضہ کرنے والے اب ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں اڈیالہ روڈ پر قائم پلازے آدھے سے زیادہ غیر سرکاری ہیں جنھوں نے نہ تو کوئی نقشہ پاس کروایا ہے اور نہ ہی کوئی این او سی جاری کروایا ہے زیادہ تر پلازوں میں پارکنگ تک کی جگہ میسر نہیں مگر ٹی ایم اے شعبہ تجاوزات کے کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت سے کوئی بھی اس مافیا کو پوچھنے والا نہیں ان کرپٹ اہلکاروں اور افسران نے کچھ پرائیوٹ لوگ اس کام کے لیے رکھے ہوئے ہیں جو مبینہ طور پر لاکھوں روپے منتھلی اکٹھی کرتے ہیں راولپنڈی و چکلالہ کینٹ کے شعبہ انسداد تجاوزات کا عملہ ریڑھی والوں سے باقاعدہ روزانہ کی بنیاد پر رشوت لیتا ہے اور فرضی آپریشن سے قبل ان تجاوز کنندگان کو الرٹ کر کے ارد گردکی گلیوں میں جانے کا مشورہ دے دیتا ہے اور انفورسمنٹ ٹرک کے جاتے ہی یہ ریڑھیاں دوبارہ سڑک پر آجاتی ہیں یہ رشوت خور عملہ ریڑھی بانوں سے پھل نقد رقم‘سگریٹ اور دیگر اشیاء کی صورت میں اپنا حصہ وصول کر کے تجاوزات کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اس کے علاوہ اڈیالہ روڈ پر پرانی اڈیالہ روڈ مکمل طور پر قبضہ مافیا کے زیر اثر ہے اس پر لوگ قابض ہیں اس کو بھی واگزار کرانا چاہیے تاکہ ٹریفک کے بحاو میں اضافے کے سبب گاڑیاں اس روڈ سے جاسکیں راولپنڈی انتظامیہ خاص طور پر ڈپٹی کمشنر کیپٹن انوار الحق کے لیے اس مافیا سے مقابلہ کرنا کسی بھی چیلینج سے کم نیں ہے لیکن اس کے لیے انکو خود متحرک ہونا پڑے گا اور تجاوزات مافیا کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اس شہر کی خوبصورتی اور آئے روز کے ٹریفک کے مسائل سے چھٹکارا تب ہی ممکن ہے جب اس مافیا کو شہر سے ختم کیا جائے گا اور بلاجواز سب کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور روڈ کے دونوں اطراف پر قائم غیر قانونی پلازوں اور ریڑھی بانوں کو ختم کیا جائے۔
202