ماضی میں روئے زمین پر بسنے والی اقوام کی تلاش انکے رہن سہن روایات تاریخی دستاویزات حوالہ جات اور آثار قدیمہ سے دستیاب نادر معلومات ثبوت کی کسوٹی پر پرکھنے کیلئے کسی بھی قوم کی تاریخ کو جاننے اور سمجھنے کیلئے بنیادی عوامل ہیں اور ہر تاریخ دان کتاب لکھنے سے قبل ان لوازمات پر باریک بینی سے تحقیقی مراحل سے گزرتا ہے تاریخ نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم اس حوالے سے مقامی تاریخ نویسی کا بڑھتا ہوا رحجان جستجو انسانی کی تہذیب وتمدن روایات افعال وکردار کو جاننے سمجھنے کیلئے ایک مثبت قدم ہے
حال ہی میں تاریخ کلرسیداں اور خاندان سادات کے عنوان سے نوجوان لکھاری سید جوادعلی گیلانی کی تحریر کردہ کتاب منظر عام پر آ چکی اور کتاب کے مصنف سید جواد علی گیلانی کیساتھ ملاقات میں انکی کی جانب سے راقم کو بھی یہ کتاب بطور تحفہ پیش کی گئی اسکے علاؤہ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر چوہدری محمد عبدالخطیب صاحب سے بھی مصنف نے پنڈی پوسٹ دفتر میں ملاقات کے دوران اپنی تصنیف کی گئی کتاب چوہدری عبدالخطیب صاحب کو بھی پطور تحفہ پیش کی اس سے قبل بھی علمی شخصیت ماسٹر کرامت حسین اور صحافی سلیم شہزاد بھی کتب کی صورت میں کلرسیداں کی تاریخ رقم کر چکے ہیں
تاہم اس نئی شائع ہونے والی کتاب میں مصنف نے کلرسیداں کی تاریخ کو ایک نئی جہت دی ہے انہوں نے اپنی کتاب میں لفظ کلر کے حوالے سے اپنی تحقیق کی روشنی میں لکھا ہے کہ تاریخی حوالہ جات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو ہندو بھائی کلیان رائے اور بیلا رائے تھا انکے نام سے کلر کا لفظ کلیان اور بیلا رائے سے بیول نام پڑگیا تاہم سید جواد حسین گیلانی اپنی تحقیق کے مطابق خاندان سادات باکھری نقوی جنکی تاریخ ساڑھے چھ سوسال پرانی انکے جدامجد پیرسید محمد علی شاہ نے984 ہجری میں کلرسیداں کو آبادکیا انکے بقول اس وقت یہ علاقہ ویران و جنگل بیابان تھا
اسی وجہ سے جب یہ قصبہ آباد ہوا تو اسے جنگل پورہ کلرکہا جانے لگاجو بعد میں کلر کے نام سے مشہور ہوا کلرسیداں ایک قدیمی قصبہ ہے1860محکمہ مال بندوبست قانون گو کے مطابق پیر سید محمد علی شاہ کلرسیداں کے اصل مالک ہیں 1011 ہجری میں مغلوں کے دور حکومت میں پیر سید محمد علی شاہ بطور قاضی جج کا عہدہ واختیاراتِ رکھتے تھے آپکے پاس ایک پتھر کی مہر بھی تھی اور وہ مہر آج بھی خاندان سادات باکھری نقوی کلرسیداں کے پاس موجود ہے بعد ازاں جب انگریز کا دور آیا تو 1860 میں سید باکھری نے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں لاکر ابادی بسائی پہلے یہ گاؤں ایک موضع تھا جسے سکھوں کے سردار ٹکاسنگھ نے انگریزوں کی ملی بھگت سے اسے کلرسگوال کلر بدھال اور کلرسیداں کے مواضعات میں تقسیم کر دیا
کلرسیداں میں قائم بابا کھیم سنگھ کی قلعہ نماحویلی کلرسیداں کی ایک منفرد شناخت بن چکی ہے جسے بیدی محل کے نام سے جانا جاتا ہے بابا کھیم سنگھ21 فروری1832میں کلرسیداں میں پیدا ہوئے انکا خاندانی تعلق سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک سے جا ملتا ہے بابا کھیم سنگھ سکھ مذہب میں ایک مذہبی پیشوا کے طور پر مقبول تھے آپکے والد بابا عطار سنگھ ایک خاندانی جھگڑے میں مارے گئے تھے بابا کھیم سنگھ نے دو شادیاں کر رکھی تھی جن میں ایک کشمیر کے مہاراجہ کی بیٹی تھی جسکے بطن سے اسکے چار بیٹے تھے دوسری بیوی سے دو بیٹے کنور مہندر سنگھ بیدی اور راجندر سنگھ بیدی تھے جو ساہیوال میں آباد ہوئے بابا کھیم سنگھ ایک سکھ مذہب پیشوا اور روحانی شخصیت کے حامل تھے
آپکی شہرت انگلستان تک پھیلی ہوئی تھی انکی شہرت کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مانچسٹر کے کپڑے کے کارخانوں میں تیار ہونے والے کپڑوں کے تھان پر کھیم سنگھ اور انکے دو بیٹوں کی تصاویر پرنٹ ہوا کرتی تھی،دھان گلی پل بھی کلرسیداں کی ایک اہم پہچان ہے جبکہ یہ پل براستہ کلرسیداں راولپنڈی اسلام آباد آزاد کشمیر سے ملانے کا واحد زریعہ ہے یہ پل 1983 میں رسوں اور لکڑی کی مدد سے بنایا گیا تھا
تاہم اب اس کی تعمیر جدید انداز میں کی گئی ہے قلعہ سنگنی بیدی محل دھان گلی پل سید باغ میر میراں صاحب عجب بی بی مائی فقیرنی بابا معصوم بادشاہ کے مزارات بھی مذہبی حوالے سے کلرسیداں کی اہم شناخت ہیں راولپنڈی سے جونہی کلرسیداں شہر میں داخل ہوئے تو بائیں جانب ایک قدیمی قبرستان واقع ہے اس قبرستان کا رقبہ 350 سال قبل خاندان سادات باکھری سید فتح شاہ کے فرزند سیدجعفر شاہ نے قبرستان کیلیے وقف کیا تھا
اس قبرستان کا کل رقبہ 17کنال ہے تاریخ کلرسیداں اور خاندان سادات کے عنوان سے لکھی کی کتاب کے مصنف سید جواد علی گیلانی کی منظرعام پر آنے والی کتاب کلرسیداں کی تاریخ کے حوالے سے مستند تاریخی حوالہ جات اور تحقیق کی روشنی میں ایک لازوال کتاب ہے یہ تصنیف تاریخ سے شغف رکھنے والے طالب علموں کیلئے کلرسیداں کی تاریخ کے چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کے حوالے سے جدید معلومات کا ایک خزانہ ہے لہذا تاریخ کلرسیداں اور خاندان سادات کے عنوان سے تصنیف کردہ کتاب کا مطالعہ ضرور کیجئے۔