تاریخ کا روشن ستارہ میاں منظور احمد وٹو

شاہد جمیل منہاس
/میاں منظور احمد وٹو تاریخ عالم کا روشن ستارہ کردار کا غازی اور عظیم انسان اپنے ہوں یا پرائے سب کے دُکھ درد میں برابر شریک ہونے والا یہ مردِ قلندرکسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میاں منظور احمد وٹو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ترین رہے کیونکہ مخلوقِ خدا کی دُعاؤں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُن کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ دُکھی دلوں کا سہارا اور انتہائی پیارا یہ انسان انتہائی خوبصورت کردار کا مالک ہے۔ ضلع اوکاڑہ میں چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل ایک حلقہ این اے 146 ہے۔ اگر کبھی اس حلقے میں جانا ہو تو اس علاقے میں موجود شہروں کی ترقی دیکھ کر انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ہر کامیاب ہونے والا سیاسی کارکن اپنی سیاسی جماعت کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے علاقے میں بے شمار منصوبے مکمل کرواتا ہے۔ اُس علاقے کی ترقی کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ وہ اس لیے کے آئندہ الیکشن میں دوبارہ کامیاب ہو سکے۔ اکثر سیاسی رہنماؤں کے پیچھے خلوصِ دل سے خلقِ خُدا کی خدمت نہیں ہوتی بلکہ وہ کُرسی ہوتی ہے جس کے چھن جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی ملکی دولت کا کچھ حصّہ اپنے نام کروانا مقصود ہوتا ہے۔ کبھی کمیشن تو کبھی کنٹریکٹر سے ملی بھگت کر کے۔ مگر کیا کہنے منظور احمد وٹو کے کہ اگر اُس کے پاس سے کوئی خونخوار جانور بغیر نقصان پہنچائے گُزر جائے تو یہ عظیم انسان اُس احسان کو تا دمِ مرگ یاد رکھا کرتا ہے۔ 80 ملین ہیکٹر پر مشتمل یہ مُلک پاکستان غربت کے منحوس چکر میں موروثی طور پر پھنسا ہوا ہے مگر میاں منظور احمد وٹو ہر گز مایوس نہیں ہوئے اور اللہ پر یقین کو پختہ کرتے ہوئے اپنی محنت جاری رکھی۔ ایسے بیٹے مائیں برسوں بعد جنا کرتی ہیں۔ تلخ حقائق اور بے رحم وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہو کر اقوامِ عالم کے لیے ایک پیغام چھوڑ رہا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم، والدین کی دُعاؤں کے بعد محنت کرنے والا ناکام ہوہی نہیں سکتا۔ ذات پات کی منفی سوچ سے کوسوں دور اس انسان نے اپنے علاقے کے سو فیصد افراد کو نوکریاں دلوائیں۔ غُرباء اور محنت کشوں کی اولادوں کو سی-ایس-پی آفیسرز بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ انتہائی کم پڑھے لکھے اور اَن پڑھ ترین افراد کو روزگار مہیّا کر کے یہ ثابت کیا کہ اوروں کے درد بانٹ لینے کو بزمِ ہستی میں عید کہتے ہیں۔ حلقہ این-اے146 کے تمام پڑھے لکھے افراد کو نوکریاں دلوانے کے بعد اَن پڑھ افرا د کے لیے سینہ تان لیا۔ میاں منظور احمد وٹو کے کیا کہنے کہ آپ کی پاکیزہ اور مخلص سوچ اور محنت کے کہ جب اَ ن پڑھ افراد کے روزگار کی بات چلی تو اُن کے لیے ڈرائیورز کی آسامیاں باقی بچ رہی تھیں مگر ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بے چارے ڈرائیونگ تک نہیں جانتے لہذا گاڑی وہی چلا سکتا ہے جو ڈرائیورہو گا۔ ہمت پھر بھی نہ ہاری۔ جب محکموں کی طرف سے منفی میں جواب ملا تو میاں منظور احمد وٹو کے خوبصورت جواب نے انقلاب برپا کر دیا وہ یہ کہ ”مجھ سے اپنے علاقے کی غربت دیکھی نہیں جاتی لہذا ان کو ڈرائیور بھرتی کرنے کے بعد ٹریننگ دی جائے اور اُن کو ڈرائیونگ سکھائی جائے“۔ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ کوئی ہنر نہیں جانتے کیا اُن کو غربت سے مار دیا جائے۔ یہ افراد اور عوام چونکہ حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں لہذا اُن پر خرچ کر کے اُن کو ڈرائیور بنایا جائے۔ اس ایک خوبصورت جواب نے محکموں اور افسران بالا کی آنکھیں کھول دیں۔ اُنہوں نے ایک موقع پر تقریر کے دوران خوبصورت بات کر کے محفل لوٹ لی۔ وہ یہ کہ ایک طرف یہ افراد اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کا سبب بنیں گے تو دوسری طرف اُن
افراد کے لیے نامہ اعمال میں نیکیاں درج کروائیں گے جنہوں نے ان کے روزگار کے حصول میں اپنا حصّہ ڈالا۔ ہر غریب اور متوسط طبقے
سے تعلق رکھنے والا انسان خوشخال افراد کے برابر کھڑا ہو گیا اور یہ کریڈٹ منظور احمد وٹو کو ہی جاتا ہے۔ اکیلے بیٹھ کر، بھری محفل میں اور راتوں کو دوسروں کے دُکھ میں شراکت دار یہ انسان دھاڑیں مار کر روتا رہا مگر مایوس ہر گز نہ ہوا۔ انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ مایوسی کفر کے زمرے میں آتی ہے۔ لہذا ربّ کی ذات پر یقین کے ساتھ ساتھ یہ مردِ قلندر جگمگ جگمگ کرتا رہا اور کردار کا لوہا منواتا رہا۔ کُرسی کُری کے کھیل سے ہزاروں میل دور یہ انسان واقعی ایک با کردار انسان ہے۔ اس عظیم انسان نے کبھی بے رحم قت اور حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور ڈٹا رہا حسین کے انکار کی طرح۔ یہ خوبصورت اشعار شائد انہی کے لیے ہیں۔
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
تارا جو کبھی ٹوٹے تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتے
کہا جاتا ہے کہ انسان اور حیوان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے تعلیم کا۔ اقوم عالم کی ہر کامیاب قوم تعلیم کے بل بوتے پر دُنیامیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ میاں منظور احمد وٹو نے اپنے علاقے میں تعلیم کا جال بچھا دیا اور جو کشکول ہر سیاسی پارٹی لے کر بھیک مانگا کرتی ہے وہ اس شخص نے اپنے علاقے کے عوام کی عزتِ نفس کی خاطرریزہ ریزہ کر ڈالا اور خودداری کا درس دیا۔ اپنے حلقے کے چھوٹے چھوٹے قصّبوں میں ڈگری کالجز قائم کیے اور شرح خواندگی کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ بقول اُن کے”صرف اپنا نام لکھ لینے والے شخص کو ہر گز خواندہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ خواندہ افراد وہ ہوا کرتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں“۔ لہذا مڈّل یا میٹرک پر اکتفاء ہر گز نہ کیا بلکہ اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی طرح اپنے حلقے کی عوام کے لیے سوچا اور کامیاب ہوئے۔ میاں منظور احمد وٹو جب وزیراعلیٰ بنے تو تمام پڑھے لکھے افراد کو کامیاب کر کے دم لیا۔ آج یہ لڑی اُسی طرح مالاؤں کا روپ دھارے ہوئے ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا اِنشاء اللہ۔ یہ آدمی واقعی بڑا آدمی ہے کیونکہ وہ چھوٹوں میں بیٹھا کرتا ہے۔ خاندانی روایات میں گوندھا ہوا یہ شخص کچھ اس طرح کی سوچ کا مالک ہے۔
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
سال میں ایک بار اپنے حلقے کے عوام کو ایک مقام پر اکھٹا کر کے اُن کے اعزاز میں پورے پروٹوکول کے ساتھ عشائیہ دینے والا یہ شخص آج اپنے خوبصورت کردار کی وجہ سے اُسی مقام پر کھڑا ہے۔ عام عوام کے ساتھ اُن کے درمیان بہت بڑا سکیورٹی رِسک لے کر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے نزدیک کالا گورا، عربی عجمی اوراپنا پرایا سب برابر تھے جس کا ثبوت اُن کی سیرت کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کی کتاب جُرمِ سیاست جو اُن کی آب بیتی ہے اُسکے مطالعہ کے بعد انسان ششدر ہو کر رہ جاتا ہے کہ اس افراتفری والی دُنیا میں آج بھی ایسے انسان موجود ہیں کہ جن کا اوڑھنا بچھونا مخلوق خدا کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ایسے عظیم افراد کی اولادیں بھلاکیسے ناکام ہو سکتی ہیں۔ منظور احمد وٹو کے لیے دل و جاں نچھاور کرنیوالے اُن کے ایک دوست، ماہر تعلیم اور سرگرم رُکن محمد عاشق انجم نے بتایا کہ اُن کی خوبصورت
ترین تربیت اُن کی اولاد کے کردار میں چھلک چھلک کر عیاں ہو رہی ہوتی ہے۔ میاں منظور احمد وٹو کا بیٹا میاں خرم جہانگیر وٹو تین بار ایم-این-اے بنا اور والد کی طرح سر اُٹھا کر جی رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نیت صاف منزل آسان۔ جس شخص کا ماضی بے داغ اور حال کھلی کتاب ہو بھلا اُس کی اولاد کیسے بھٹک سکتی ہے۔ میاں خرم جہانگیر کے لیے ایک شعر
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
میاں منظور احمد وٹو اور اُن کی اولاد اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ہیں۔ ذرّہ برابر بھی عزت دینے والے افراد کو سر کا تاج بنانے والے اس کارواں کے سپہ سالار کو سلام۔ میاں منظور احمد وٹو مظلوم کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہنے والا مردِ مجاہدہے۔ دوسری جانب بیٹیاں چونکہ رحمت ہواکرتی ہیں لہذا جب اُن کی بیٹی روبینہ زینب ایم-این-اے بنی تو اہلِ علاقہ کے لیے کسی رحمت سے کم نہ تھی اور پھر ثابت کیا کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ مظلوم کے لیے منظور احمد وٹو میٹھے گھاٹ کے پانی کی طرح ہیں اور ظالم کے لیے کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں ہیں۔ جب حالات کے سامنے ڈٹ جانے کی بات آتی ہے تو جابر حکمران کا روپ دھار لیا کرتے ہیں۔
ازل سے رچ گئی ہے سربلندی اپنی فطرت میں
ہمیں بس ٹوٹنا آتا ہے جھک جانا نہیں آتا

اپنا تبصرہ بھیجیں