تاب دان کی روشنی میں نظام تعلیم

کسی شاعر کے الفاظ میں پنہاں فکری خزینوں کی پذیرائی کے لیے اتنا کہنا کافی نہیں ہوتا کہ منفرد ردیفوں کا استعمال ہوا ہے، عمدہ کاوش ہے، رواں بحریں ہیں، جدید لہجہ ہے۔میرے خیال میں عمدہ تخلیق کار کی شاعری اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے کھولا جائے اور ان میں موجود موضوعات پر الگ سے قلم اٹھا یا جائے۔ہم کہتے ہیں کہ ایک شعر میں سارا سمندر سمیٹا جا سکتا ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ پورے مجموعے کی ترجمانی کے لیے کچھ موضوعات کا بیان کر کے چند سطروں میں بات کہہ دی جاتی ہے۔میں ہر کتاب لینے سے پہلے ضرور سوچتا ہوں کہ اس میں میرے لیے کیا ہے۔یقیناہر قاری بھی یہی سوچتا ہے۔تاب دان میں مذہبی، ثقافتی، علمی، تہذیبی، سماجی، اقتصادی، رومانی، حیرانی، امید، عشق، تصوف، ماضی، حال، مستقبل ہر حوالے سے بہت کچھ ہے۔آپ اپنی دلچسپی کا موضوع سوچیے اور کتاب کھولیے۔آپ کو بہت کچھ ملے گا۔میں چونکہ کالم نگاری اور شاعری کے ساتھ ساتھ ایک معلم بھی ہوں اور اس پر مجھے فخر بھی ہے۔میں نے سوچا کہ علمی حوالے سے اس کتاب کی ورق گردانی کی جائے تو مجھے بہت کچھ ملا۔اس موضوع پر، اسی کتاب سے کئی اشعار کا انتخاب کر کے عصرِ حاضر کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔کاش! ہمارا معاشرہ اچھے تخلیق کار سے انصاف کر سکے، کاش! الفاظ میں چھپے ان جذبات کو سمجھ سکے جو قلمکار کے سینے میں دھڑکتے ہیں۔موجودہ دور کئی بحرانوں کا شکار ہے۔وباء، سیلاب، سوشل میڈیا، مادی ترقی، مذہبی و مسلکی منافرت، قلمی جنگوں اور علمی مقابلوں نے عہدِ حاضر کے چہرے پر ہزاروں الجھنوں کی خاک مَل دی ہے تبدیلیوں نے ذہن، دل، خیال، سوچ، نظریہ نہ جانے کیا کیا چیزیں بدل دی ہیں تعلیمی میدان میں بھی بہت سے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سلیبس ختم کروانے والے مشینیں بھرتی کی جاتی ہیں اور وہ نئی نسل کو ایسی مشینوں میں بدل دیتی ہیں جن کی سوچ سلیبس کے اندر ہی ساری زندگی مقید رہتی ہے نوید ملک کہتے ہیں
ننھے کاندھوں پہ کتابوں کا نہ یوں بوجھ بڑھا
بستہ خوابوں کو جگانے سے بڑا ہوتا ہے
نوید ملک کا یہ شعر موجودہ تعلیمی نظام کے نہ صرف عکاسی کر رہا ہے بلکہ یہ سوچنے پر بھی ابھارتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہے، اساتذہ کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے، تشکیلِ نصاب کے وقت ماہرین کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔موجودہ نظام ٹمٹماتے چراغوں کو سورج بنانے سے قاصر ہے۔یہی چراغ جب کالجز اور یونیورسٹیز میں جاتے ہیں تو فکری صلاحیتیں بجھ جاتی ہیں۔نہ کوئی وژن ہوتا ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی بڑا کام کرنے کی تمنا۔نوید ملک رومانوی انداز میں بھی بڑی بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔موجودہ دور میں رومانوی شاعری صرف لطف لینے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اشعار بھی ایسے ہوتے ہیں کہ پڑھا، مسکرایا اور بھول گیا۔مشاعرے لوٹنے کی خواہش نے شاعروں کی تخلیقی صلاحیتیں تباہ کر دی ہیں شعر دیکھیے:
ویسے اِسکول کے ماحول سے محروم رہا
اک محبت نے مجھے جو بھی سکھایا دوں گا
اسکول انگریزی کا لفظ ہے اور خوبصورتی سے برتا گیا ہے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو جو کچھ سکھایا جائے گا وہ اسکول کی ذمہ داری ہے اور اساتذہ ذمہ دار ہیں۔یہ شعر اگر اسکول کے ماحول سے محرومی کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف ایک ایسے جذبے کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں پیدا کیا ہے۔محبت۔یہی محبت انسان کے باطن کو شفاف کرتی ہے اور آنکھوں پر کئی آسمانوں کے مناظر کھولتی ہے۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ شاعر اس بات کا ارادہ بھی کرتا ہے کہ اس نے عملی طور پر جو کچھ سیکھا وہ سکھائے گا۔یعنی کائنات میں وہ جن تجربات سے گزرا، ان کے نتائج کی روشنی میں دوسروں کی رہنمائی بھی کرے گا۔دو شعر دیکھیے:
اِس خطا پر مجھے استاد نے انعام دیا
میں نے ٹیبل پہ سیاہی سے بنائے تارے
معتبر شخص بھلاتا نہیں محسن اپنا
اور استاد سکھانے سے بڑا ہوتا ہے
یہاں اساتذہ کے وژن، کردار اور مقام و مرتبے کی بات کی گئی ہے۔اب ایک طالبِ علم جس نے ٹیبل پر تارے بنائے دراصل اُس کے تخیل کی ترجمانی ہو رہی ہے۔استاد کی نظر اس کے باطن پر ہے اور وہ اس میں ایک عظیم انسان دیکھ رہا ہے۔وہ خطا پر بھی انعام دیتا ہے۔اس شعر سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اساتذہ کو روایتی رویوں سے نکلنا چاہیے۔ان کے سامنے طالبِ علم نہیں بلکہ انسان ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ان کی عقل و شعور کو پروان چڑھائیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کریں۔دوسرے شعر میں استاد اور شاگرد کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔اچھا اور مخلص استاد وہی ہے جو پوری توجہ، محنت اور لگن سے معلمانہ فرائض سر انجام دیتا ہے۔یہاں صرف اساتذہ کے احترام کی بات نہیں ہو رہی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اساتذہ کو اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے اپنے منصب سے وفا بھی کرنا پڑے گی۔نوید ملک بعض اوقات باغیانہ رویہ بھی اپناتے ہیں مگر اتنے میٹھے لہجے میں کہ پڑھنے والا اپنے اندر دراڑیں تک محسوس نہیں کرتا۔شعر دیکھیے:
یہ روشنی تو میرے کسی کام کی نہیں
گھر کا کوئی چراغ بھی سچا نہیں رہا
یہ قاری، ناقد، معلم یا کسی بھی شخص کی مرضی کہ وہ روشنی کی علامت سے کیا چیز دریافت کرتا ہے۔نوید ملک کے کئی اشعار ایسے ہیں جو کئی حوالوں سے بیان کیے جا سکتے ہیں۔یہی تو بڑی شاعری کی خوبی ہے کہ اس کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔میرے موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھیں اور معانی و مفاہیم تک اپنے علم کے مطابق رسائی حاصل کریں۔
اتنی بڑی کتاب، تو کاندھوں پہ بوجھ ہے
بہتر یہی ہے آپ بھی چربہ اتار دیں
تم کر رہے ہو بات نوید احتجاج کی
اب تو لبوں پہ نام کا اظہار بھی نہیں
اِس عہد پر ہر ایک شکاری کی ہے نگاہ
اور گونجتی ہے خوف میں چہکار مختلف
میری دعا ہے کہ نوید ملک جس نظامِ تعلیم کی بات کرتے ہیں وہ قائم ہو جائے اور ہر چراغ، سورج میں ڈھل کر اجالے کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں