بیٹیوں کی حق میراث، دین کی اصل

ہمارے معاشرے میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ عورتوں کو ان کا جائز وراثتی حصہ نہیں دیا جاتا حالانکہ قرآن و سنت میں یہ حق واضح اور لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں، خاندانوں میں اور معاشرتی ڈھانچے میں عورتوں کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جاتا ہے اور سب سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب عورتیں خود اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ بھائیوں کو دے دینا بہتر ہے حالانکہ یہ رویہ سراسر غلط ہے کیونکہ جو عورت اپنا حصہ نہیں لیتی وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کرتی ہے بلکہ ان عورتوں پر بھی ظلم کرتی ہے جو اپنا حصہ لینا چاہتی ہیں مگر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خاموش ہو جاتی ہیں۔

یہ خاموشی دراصل ظلم کو تقویت دیتی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی
تنظیمیں جو ہر وقت نعرے لگاتی ہیں جیسے ”ہمارا جسم ہماری مرضی” یا دیگر غیر ضروری معاملات پر واویلا کرتی ہیں وہ اس حقیقی اور بنیادی حق پر کیوں خاموش ہیں‘ کیوں وہ ان عورتوں کو راغب نہیں کرتیں کہ اپنا حصہ لیں‘ کیوں ان معاملات پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند نہیں کرتیں کیا یہ عورت کا سب سے بنیادی حق نہیں کہ اسے وراثت میں اس کا حق دیا جائے لیکن ان تنظیموں کو شاید شور شرابہ صرف ان کاموں میں کرنا اچھا لگتا ہے جہاں شہرت ملتی ہے اور میڈیا کوریج حاصل ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ٹی وی ڈرامے فلمیں اور میڈیا بھی اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ہمارے ڈراموں میں دن رات عشق و محبت کی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں

مگر کبھی کوئی ڈرامہ عورت کے وراثتی حق پر نہیں بنایا جاتا کبھی کوئی کردار یہ نہیں دکھاتا کہ بہن کو اس کا حصہ ملنا چاہیے معاشرتی اصلاح کے نام پر ڈرامے تو بنتے ہیں مگر سب سے اہم اور بنیادی موضوعات پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں یہ ہمارے میڈیا کی ناکامی ہے ہماری تبلیغی جماعتیں بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں وہ جگہ جگہ جا کر لوگوں کو دین کی دعوت دیتی ہیں دعوت اسلامی ہو یا رائیونڈ کی تبلیغی تحریک ہر جگہ تبلیغ کا شور ہے مگر اپنے گھروں کے اندر بہنوں بیٹیوں کو حق دلانے کی بات کیوں نہیں کرتے اپنے والدین بہن بھائیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ قرآن کے حکم کے مطابق عورت کو اس کا حق دو کیا یہ دین کا حصہ نہیں

کیا یہ تبلیغ کا بنیادی تقاضا نہیں کہ سب سے پہلے گھر سے شروعات کی جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے واعظین اور مبلغین دوسروں کو بدلنے نکلتے ہیں مگر اپنے گھروں کے اندر یہ بنیادی حق نظر انداز کرتے ہیں یہ دوغلا پن اور خاموشی اس معاشرتی ظلم کو بڑھا رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء، مبلغین، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عورتوں کے حقوق کی علمبردار انجمنیں سب مل کر اس پر کھل کر آواز اٹھائیں تاکہ عورت کو اس کا وراثتی حق ملے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور جو لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کو ان کے حصے سے محروم کرتے ہیں یا جو عورتیں خود یہ حق چھوڑ دیتی ہیں وہ جان لیں کہ یہ دین کے خلاف ہے اور یہ عمل ان کے لیے دنیا و آخرت میں نقصان کا باعث ہے۔

تحریر: محمد سرفراز