بیوی اور بھانجے کے ہاتھوں خاوند قتل

مسعود جیلانی،پنڈی پوسٹ/رشتوں کی تمیز ہی انسان اور حیوان میں فرق کرتی ہے لیکن معاشرے میں کئی لوگ ہوس کے ہاتھوں اس حد تک چلے جاتے ہیںکہ وہ رشتوں کے تقدس کو ہی بھلا دیتے ہیں پھر انھیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہوتی ہے ان واقعات کے پسِ منظر میں نظر دوڑائی جائے تو کہیں نہ کہیں ان کے خون میں حرام کی آمیزش ضرور ملتی ہے جو انھیں انسان نما ہوتے ہوئے بھی انسان نہیں رہنے دیتی ان تمام باتوں کی تصدیق تھانہ چونترہ کے موضع میال میں ہونے والا دلخراش واقعہ سے ہو رہی ہے جہاں ممانی نے اپنے خاوند کے سگے بھانجے سے ناجائز تعلقات بنا کر اپنے تین کمسن بچوں کے مستقبل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رات کی تاریکی میں اپنے خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دیا پولیس ملازم اطہر عباس عرف عطی سابق چیئر مین یونین کونسل پڑیال ملک محمد تاج کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی شادی اپنی خالہ زاد سمیرا بی بی دختر ملک محمد ارشاد سکنہ رنوترہ نز دچک بیلی خان سے ہوئی جس سے اس کے تین بچے عبدالوہاب عمر ساڑھے چھ سال، تحریم اطہر عمر ساڑھے تین سال اور عبیرہ اطہر عمر ڈھائی سال پیدا ہوئے۔ رشتہ داروں کو گذشتہ ایک سال سے سمیرا بی بی اور اس کے خاوند کے سگے بھانجے زاہد عرف بگو کے درمیان ناجائز تعلقات کا شبہ تھا جو اطہر عباس عرف عطی کے قتل کے بعد بالکل سچ ثابت ہو گیا اطہر عباس گھر پانچ دن کی چھٹی آیا ہوا تھا کہ صبح گھر سے اس کی لاش ملی۔ بیوی نے بتایا کہ گھر میں رات دو مرد اور ایک عورت مہمان آئے تھے جنھیںوہ گھر چھوڑ کر خاوند کے کہنے پر نند کے گھر چلی گئی تھی صبح مہمان غائب تھے اور اس کے خاوند کی لاش پڑی تھی۔ سی پی او راولپنڈی فیصل رانا نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے چونترہ پولیس کو اہلخانہ کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کی جس پر ایس ایچ او چونترہ ملک نعیم اختر نے مقتول کی بیوی سمیرا بی بی دختر محمد ارشاد کو گرفتار کیا جس سے سارا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا۔ دوران تفتیش سمیرا بی بی نے بتایا کہ اسکے خاوند نے حال ہی میں مکان بنانے کے لئے جمع شدہ رقم مبلغ نو لاکھ روپے دئیے کہ وہ انھیں سنبھال کر رکھے اس نے وہ پیسے اور گھر کے زیورات لئے اور اپنے یار زاہد عرف بگو کے ساتھ اطہر عباس عرف عطی کے قتل کا منصوبہ بنایا اس کے لئے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے افتخار نامی اجرتی سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں بات طے ہوئی۔ رات کو سمیرا بی بی نے پہلے خاوند کو دودھ میں آٹھ نیند کی گولیاں دیں جن سے وہ نیم بے ہوش ہو گیا لیکن تسلی کرنے کے لئے بعد میں مزید بارہ گولیاں دلیہ میں ملا کر منہ میں ڈالتی رہی خوب تسلی ہو جانے پر ایک فائر افتخار نے مارا اور ساتھ ہی دو دو فائر سمیرا اور زاہد عرف بگو نے بھی مقتول اطہر عباس کو مارے۔ زیادہ خون نکلنے پر وہ خون کودیگچے اور بالٹیوں میں ڈالتی رہی جسے پانی ڈال کر پتلا کر کے ساتھ خالی زمین میں پھینک دیا۔ قاتلہ نے خون پھینکے جانے والی جگہ کی نشاندہی بھی کی۔ موت کی تسلی ہو جانے پر وہ نند کے گھر چلی گئی اور بتایا کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں جبکہ زاہد عرف بگو اجرتی قاتل افتخار کو چھوڑنے چکری اڈے پر چلا گیا ۔ اجرتی قاتل افتخار نے بیان دیا کہ اسے زاہد عرف بگو نے مفت میں بھینس دینے کے لئے بلایا اور آنے پر اس نے اس سے یہ کام کروایا۔ زاہد عرف بگو کو اپنے سگے ماموں کو قتل کرنے اور سگی ممانی سے ناجائز تعلقات پر کوئی ندامت نہیں تھی اس نے ڈھٹائی کے ساتھ ماموں کے قتل اور ممانی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا اقرار کیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ کسی رشتے کو تسلیم نہیں کرتا ہاں البتہ اس نے ایک شخص قتل کیا ہے۔ اطہرعباس کے تینوں بچوں کو اطہرعباس کے کزن یعنی بچوں کے چچا حسیب نے پرورش کے لئے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں