بیول کی سیاست کھیلوں کے میدان تک آ پہنچی

کاشف حسین/سادگی کا چولا اور معصومیت کا روپ معاشرے میں انسان کو کتنا معتبر بنا دیتا ہے کہ وہ خطاوار ہوکر بھی سزا وار نہیں ٹھہرایا جاتا کیونکہ وہ خود کوہمیشہ شک کے دائرے سے دور رکھتا ہے لیکن فی زمانہ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ شعور اور آگاہی کا دور ہے۔راستوں کا انتخاب انسان کی اپنی مرضی ومنشاپر منحصر ہوتا ہے بعض لوگ ابتداء سے ہی غلط اور پر فتن راستوں کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں جن پر چلتے ہوئے وہ سوچتے ہیں یہ راستے انہیں منزل تک پہنچائیں گے لیکن بے اصولی اور بد نیتی سے مغلوب ہو کر بلاآخر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔کہتے ہیں رقابت اور انتقام کو کوئی روپ دیا جائے اس کے حتمی نتائج تباہی کی صورت میں ہی سامنے آتے ہیں یوں تو وطن عزیر میں ہر شعبہ ہائے زندگی ظلم زیادتی اور ناانصافی سے عبارت ہے ہر کوئی اپنے منصب اور اپنی طاقت کو اپنی خوشی اور اپنی انا کی تسکین کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن ہماری سیاست تو خود نمائی‘خود آسودگی اور اناپرستی کا دوسرا نام ہے۔منتخب نمائندے کامیابی کے بعد خود کو اپنے حلقہ کے ان داتا تصور کرتے ہیں کہیں کوئی بھی فنکشن میں انہیں بطور چیف گیسٹ نہ بلوانا گویا فنکشن کو ناکام کروانے کے مترادف ہوتا ہے۔گذشتہ دنوں بیول کے سیاسی وسماجی رہنماء نوجوان ثاقب وارثی نے برطانیہ میں مقیم طارق پرویز کی خواہش اور مالی سپورٹ پر بیول میں ایک کبڈی میچ کا انعقاد کروایا جس میں پنجاب کے شہر اوکاڑہ کی ٹیم بیول کے مدمقابل تھی۔کبڈی میچ کا اعلان ہوتے ہی اس پروگرام کے انعقاد میں روڑے اٹکانے کا کام شروع کر دیا گیا۔حکومتی جماعت سے تعلق کی بنا پر اداروں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف قسم کی شرائط عائد کی گئیں۔ایک کے بعد ایک نکتہ نکالا گیا۔میچ کے انعقاد میں اس قدر مشکلات پیدا کی گئیں کہ ایک وقت میں ثاقب نثار نے میڈیا کو میچ کینسل ہونے کا بیان جاری کرتے ہوئے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔تاہم برطانیہ میں بیٹھ کر بیول اور اردگرد کے مستحق لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے جہد مسلسل کرنے اور نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے والے سپوت بیول طارق پرویز نے ہمت نہیں ہاری اور بلا آخر کبڈی میچ کو مقررہ تاریخ پر ہی منعقد کروانے میں کامیاب رہے۔ان صاحبان کوکیا کہا جاٰئے جو اپنی انا پرستی اور خود نمائی کی حوس میں منفی سیاست کو کھیلوں کے گراؤنڈ تک لے آئے۔سیاست میں ہمیشہ مخالفین کے خلاف ہتکھنڈے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ حسد اور رقابت کھیلوں کے میدانوں تک وسیع کی گئی ہو۔یہ بھی موجودہ حکومت کا خاصہ ہے کہ اس کے نمائندے صرف اس لیے کوئی پروگرام منعقد نہیں ہونے دیتے کہ اس پروگرام میں ان کی مشاورت اور چوہدراہٹ شامل نہیں۔کیا پبلک کو علم نہیں ہوا کہ اس کبڈی میچ کے انعقاد میں کس کس نے روڑے اٹکائے۔اسی طرح پریس کلب بیول کے پلیٹ فارم سے رکھوائی جانے والی ایک کھلی کچہری بھی اسی اناپرستی کے باعث کینسل کروانے کا شرف بھی اس جماعت کو حاصل ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رشتہ کوئی بھی ہو دھوکہ کسی صورت براشت نہیں کیا جاتا اور جہاں قوت سے زیادہ برداشت سے کام لیا جائے وہاں بغاوت جنم لیتی ہے شاید انہیں بھی علم ہے کہ آئندہ الیکشن میں داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں اس لیے اپنی ٹرم کسی بگڑے نواب کی طرح من مرضی سے پوری کرنا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں