بیول کا نوجوان انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار

کاشف حسین/انسان کی شخصیت تہہ درتہہ ہوتی ہے لیکن فطرت گرہ کی ایک ایک کر کے کھلتی ہے جیسے جیسے وقت گذرتا ہے انسان خود کو جانتا اور اپنی پہچان بناتا ہے اور اس جان پہچان میں وہ مخلوق کے قریب ہوجاتاہے اور خالق کی قربت میں خود کو فراموش کر دیتا ہے۔محبت وہ جذبہ ہے جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو دل صرف مخصوص افرادکی محبت سے سرشار نہیں رہتا بلکہ ہرذی روح کے لیے اس کے دل میں نرم گوشہ جگہ بنا لیتا ہے موجودہ دور میں غریب کے مصائب‘ضروریات‘حاجت اور عزت نفس کی کیا بات کی جائے کیونکہ فی وقت حکمرانوں کے نزدیک اب ان باتوں کی وقعت نہیں رہی کیا ہونے والا ہے‘کیا ہورہا ہے۔انسانیت کس کرب سے گذر رہی ہے عوامی نمائندوں کو اس کا احساس تک نہیں۔بڑھتی بے روزگاری‘مہنگائی‘قوت خرید کی کمی‘لوٹ کھسوٹ‘ مارا ماری‘جھوٹ‘فریب اور ان سب پر رقص کناں حکمران وسیاست دان۔جنہیں اپنے مفادات کی جنگ لڑنے سے فرصت نہیں۔ایسے معاشرے میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ لیے جو لوگ میدان عمل میں نظر آتے ہیں وہ یقیناً قابل تعریف و لائق تحسین ہیں۔زندگی اور موت کی کشمکش سے کوئی آزاد نہیں ہر شخص کو دنیا میں آنے کے بعد زیست کے کرب والام سے گذرنا ہے اور پھر موت سے ہمکنار ہونا ہے مگر موت کی حقیقت کو ہر کوئی یاد نہیں رکھتا۔کچھ ایسے بھی ذی نفس ہیں جو اپنی طاقت قوت اور دولت و آسائش کو اول وآخر صرف وصرف اپنے لیے مخصوص سمجھتے ہیں لیکن معاشرے میں ایسے درد دل رکھنے والے افراد بھی موجود ہیں جو اپنی دولت و آسائش کی زندگی میں مستحق ومحروم طبقے کو حصہ دار بنا کر اپنی ابدی زندگی کے لیے اعمال کی صورت سرمایہ جمع کر رہے ہیں۔میں نے پنڈی پوسٹ کے قارئین کے لیے خطہ پوٹھوار کے ایسے دردمند شخصیات بارے تعارف پر مبنی ڈائریوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس سے جہاں انتہائی خاموشی سے انسانیت کی خدمت میں مشغول ان افراد کے اس نیک کو خراج تحسین پیش کیا جائے وہیں ان افراد بارے پڑھ کر دیگر صاحب ثروت لوگوں کو بھی ترغیب ملے کہ رب کائنات کے عطا کردہ مال پر غربا اور مستحقین کا بھی حق ہے اور رب کی رضا کے لیے ایسے افراد کا خیال رکھنا ان کے لیے بھی ضروری امر ہے۔آج میری تحریر کا محوربیول مدنی محلہ کا 27 سالہ نوجوان ملک نعمان طارق ولد ملک طارق کا کردار ہے۔یہ نوجوان بیول اور اس کے اردگرد کے علاقوں کے نوجوانوں میں خاصہ مقبول ہے۔آپ کے خاندان کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اورآپ کے والد اسوقت یوسی بیول کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔آپ بھی ایک وقت میں یوسی بیول سے پیپلز یوتھ ونگ کے صدر رہے۔آپ نے ایف اے بیول سے کیا اور 2010 میں مزید تعلیم کے لیے برطانیہ گئے چار سال میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے برطانیہ کے سٹیزن کے دوبئی میں چلنے والے اسکول کو بطور سافٹ ویئر اپریٹر کے طور جوائن کیا کورونا کے دوران آپ واپس آئے لیکن آپ اس وقت بھی بیول رہ کر آن لائن اپنا کام کررہے ہیں۔آپ بیول میں نوجوانوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کی فراہمی کے لیے مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کروانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔آپ نے علاقے کے غریب اور نادار بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے ”امید“ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کررکھا ہے جس کے پلیٹ فارم سے مستحق بچوں کی اسکول فیس‘یونیفارمز‘جوتے‘کتابیں اور دیگر ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اس نیک کام کے تمام اخراجات آپ خود اپنی جیب سے کرتے ہیں اور کسی سے اس سلسلے میں فنڈ نہیں لیے جاتے آپ ایک سوشل میڈیا پیج زندگی بیول نی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں‘ زندگی بیول نی پیج کا پلیٹ فارم بھی غرباءکی مدد امداد کے لئے استعمال کر رہے ہیں آپ کا کہنا ہے بیول میں ایک ایسا ہیلتھ سینٹر بھی ہونا چاہیے جہاں غریبوں کو علاج کی ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔آپ مستقبل میں ایک این جی او بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس پر کام جاری ہے جو علاقے کی غریب‘بیوہ اور بے سہارا خواتین کے لیے کام کرے گی۔انہیں اپنے پاوں پر کھڑے کرنے کے لیے انہیں مدد فراہم کی جائے گی۔جس میں سلائی کڑھائی کے علاوہ دیگر آپشن بھی زیر غور ہیں آپ نے دوارن گفتگو ایم پی اے چوہدری جاویدکوثر سے اپیل کی کہ بیول اور اس کے گرد، ونواح میں نوجوانوں کے لیے کوئی گراونڈ موجود نہیں وہ گراونڈ کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب راغب کرکے انہیں معاشرتی برائیوں سے بچایا جا سکے۔آپ سیاسی شخصیات میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے راجہ پرویز اشرف کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں آپ کے خیال میں راجہ پرویزاشرف ایک شفیق‘ملنسار اور خوش اخلاق شخصیت ہیں جن سے ملنے کے بعد ہر فرد ان کے اخلاق اوران کے محبت بھرے انداز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔آپ نے نوجوانوں کے لیے اپنے پیغام میں کہا کہ ہر ایک کی سنو اور ہر ایک سے سیکھو کیونکہ ہر ایک سب کچھ نہیں جانتا لیکن ہر ایک کچھ نہ کچھ ضرور جانتا ہے۔اسی سیکھنے میں کامیابی پنہاں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں