طالب حسین آرائیں
شاید میں ذہنی طور پر بیمار ہوں اس لیے برسوں سے بے خوابی کے دہکتے ہوئے عذاب میں مبتلا ہوں‘ جاگتی اور جلتی آنکھوں سے ناممکن کے خواب دیکھتا ہوں ایک شائستہ اور انسان گیر معاشرے کے وجود کی آرزو میرے ذہن کا سب سے پیش بہا سرمایہ ہے میں تو ساری دنیا کو اپنا وطن مالوف خیال کرتا ہوں جب ایسا ہے تو کیا میں اپنے شہر اپنے قصبے اور اپنا علاقے کے سنگین ترین معاملوں کو اپنے خونیں دل سے محسوس نہیں کرتا ہوں گا ؟
جس شہر جس علاقے کو میں نے اور میرے آباؤ اجداد نے وطن کے طور اختیار کیا میرا حق ہے کہ میں اپنے مسکن کے مسائل پر بار بار گفتگو کروں ؟نہیں جانا گیا نہیں جانا جاتا کہ کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے اس علاقے کی امیدوں اور امنگوں کو کو نیم جان کیا کہتے ہیں نیک نیتی کو ثمر آور ہونے کے لیے سچ سے سیراب کرنا پڑتا ہے سچ کی اپنی روشنی ہوتی ہے اپنی حکمرانی ہوتی ہے میرا موضوع ایک ایسے سچ سے متعلق ہے جو نظر آتے ہوئے بھی منصفانہ اور رہبرانہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے بعد محکمہ ہائی وے کی جانب سے بیول میں سموٹ روڑ پر ٹالی موڑ سے موڑہ نگیال تک سڑک کی تعمیر شروع کی گئی جو مٹیریل کے حوالے سے تو شاید قابل تنقید نہیں ہے کیونکہ وہ بظاہر کافی اچھی اور کافی مضبوط دیکھائی پڑتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر میں نیچے سریے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔لیکن حسب رویت اور حسب عادت سڑک کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کو پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے دونوں اطراف سیوریج کے لیے نالی نہیں بنائی گئی سڑک کے دونوں اطراف دوکانیں اور ہوٹلز موجود ہیں جن کا پانی سائڈوں میں بنی کچی نالی سے گذرتا ہے۔کہیں کہیں یہ نالی صرف لکیر کی صورت میں ہے اور سڑک کے برابر ہے
جس کے باعث وہاں سے پانی سڑک پر آتا ہے اور یہ پانی سڑک کو نقصان پہنچنے کا باعث بن رہا ہےں یہاں کے بااختیار لوگ وہ چاہیے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس مسلے چپ سادھے ہوئے ہیں۔کیونکہ یہ وہ لوگ جو نہ تو عوامی مسائل بارے آگاہی رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی فکر۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ سڑک کی تعمیر کے دوران اور تعمیرمکمل ہونے پر ہمارے علاقے کے تمام سیاسی رہنماءاس پر نظر رکھتے۔
اب معلوم نہیں کہ اس سڑک کی تعمیر کے بعد دونوں اطراف سوریج کے پانی نکاسی کے لیے پختہ نالی بنانا کس کی ذمہ داری بنتی ہے آیا یہ کام ہاے وے ڈیپارٹمنٹ کو کرنا تھا یا یونین کونسل بیول کو اس کا تعین کروانا ہماری مقامی سیاسی قیادت کا کام ہے جو سو رہی ہے منتخب ایم پی اے کے پاس حکومت میں نہ ہونے کا بہانہ ہے تو موجودہ حکومت کے رہنماؤں کے پاس کہیں سنوائی نہ ہونے کا۔
دونوں کے پاس بری الزمہ ہونے کا جواز موجود ہے لیکن سوال بنتا ہے کہ اگر سیوریج کی ایک نالی بنوانا ان کا اختیار نہیں تو وہ کیوں اسمبلی میں بیٹھے ہیں دیگر لوگ کیوں اپنی جماعت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں اس وقت برسراقتدار جماعت سے وابسطہ رہنماؤں کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کی کوشش کریں۔لیکن شاید یہ ایک ناممکن خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔جن پاس اپنے ورکرز اور کارکن کے لیے وقت نہیں وہ عام افراد کے لیے کیونکر وقت نکال سکتے ہیں۔بے رخی بے پرواہی لاغرضی ان سب کی مشترکہ عادت ہے۔شاید میں ذہنی مریض ہوں کہ ایک
ناممکن خواب دیکھ رہا ہوں۔