77 برس ہوئے اس نام نہاد جمہوریت کا سفر جاری ہے۔ پرانے وزیر مشیر جاتے ہیں نئے ان کی جگہ لے لیتے ہیں لیکن عوامی مفادات کے فیصلے کبھی سامنے نہیں آتے‘ یہ سب گاؤ وخررفت والا معاملہ بنا ہوا ہے۔ہمارے آباو واجداد پاکستان بننے کے بعد بہتر زندگی کی امید میں راہ عدم سدھار گئے۔ ان کے بعد کی نسل بھی بہتری کی آس لگانے زندگی کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ تیسری نسل مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسی رہبروں کے جھوٹے بیانیوں۔پرفریب نعروں اور سہانے خوابوں پر سر دھنتی نظر آتی ہے
جبکہ ہماری جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں نسل در نسل ہمیں غلام تصور کیے چلی آرہی ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ایسی ویرانی اور حیرانی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے کہ ہردم آنکھوں میں اشکوں کی فراوانی اور دل کو غم وپریشانی جکڑے رہتی ہے۔مسلسل یکسانیت نے ہمیں توڑ کر رکھ دیا ہے تشنگی اور گھٹن نے ہمارے اضطراب کو بڑھا دیا ہے لیکن ہمارے اکابرین کی بے حسی نہ بولتی ہے اور نہ سنتی ہے
پاکستان بنانے والے ہمارے آباؤ واجداد پاکستان بننے کے ثمرات عوام تک پہنچنے کے انتظار میں اپنی بینائی کھو کر جہاں فانی سے کوچ کرگئے ان کے بعد ہم دوسری نسل کے طور پر اپنے اندر کے طوفان برپا کرنے والے تباہی کن پانیوں کے افقوں پر اپنی امیدیں تلاش کررہے ہیں مگر فل وقت وہ امیدیں تاحال ہمیں دیکھائی نہیں دے رہیں ہمارے ووٹوں سے منتخب ہمارے رہبرؤں کو طاقت ودولت نے اختیار دے رکھا ہے
کہ قانون شکنی کریں۔آئین شکنی کریں۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ عوام تو ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے سیاست کو ہمارے یہاں ایسا عمل بنا دیا گیا جو چالاکی‘سازش اور فریب دہی اور دروغ گوئی رکھتا ہے۔ہمارے رہبروں اور حکمرانوں کی اکثریت جس طرز سیاست پر عمل پیرا ہے کیا اس کا حکمت سے کہیں دور کا واسطہ ہے؟ میری نظر میں ہمارے ووٹوں کے حقدار وہ ہونے چاہیں جو ہمارے جیسے مسائل کا شکار ہوں ہمارے رہبری کرنے والے لوگوں کا تعلق معاشرے کے حکیم ترین یا دانشمند مند ترین لوگوں کے حلقے سے ہونا چاہیے۔جو ہمارے لیے سہولتوں کی فراہمی کے منصوبے بنائیں نہ کہ ہمارے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیں۔ہ
مارے رہبر ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے ہمارے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔بیول سے حبیب چوک وایا نڑالی جبیر کی سڑک گزشتہ کئی سالوں سے معتدد مقامات پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔پنجاب میں 2008 سے 2013 تک مسلم لیگ کی حکومت رہی 2013 میں اس حلقہ سے ن لیگ کے ہی ایم این اے اور ایم۔پی اے منتخب ہوئے۔پنجاب اور وفاق میں ن۔لیگ کی ہی حکومتیں بنیں۔لیکن اس سڑک کی ازسر نو تعمیر نہ ہوسکی۔2018 میں یہاں سے پی ٹی آئی صوبائی نشت پر کامیاب رہی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنی۔لیکن یہ سڑک توجہ نہ پاسکی۔اب پنجاب اور وفاق میں ایک بار پھر مسلم لیگ حکمران ہے یہاں سے ن۔لیگ کو کامیابی نہیں مل۔سکی لیکن سابق ممبر اسمبلی اقتدار انجوائے کرتے دیکھائی دیتے ہیں
اب اب سڑک پر اتنی کرم۔نوازی ہوئی کہ ٹوٹے پھوٹے حصوں کی مرمت کا آغاز کیا گیا لیکن یہ مرمت عوام کی مرمت کے مترداف ثابت ہوئی سڑک پر تین جگہوں پر پتھر ڈال کر چھوڑ دیئے گئے لگ بھگ سال ہونے کو آیا ہے ان پتھروں کو ہموار کرنے کے لیے رولر تک نہیں لایا جاسکا جس کے نتیجے میں یہاں سے گزرنے والے اپنے سیاسی رہبروں کی جان کو روتے ہیں پتھروں کی ناہمواری جہاں موٹر سائیکل سواروں کی اچھل کود کا کارن بن رہے ہیں وہیں گاڑیوں کے ٹائروں کی واٹ بھی لگ رہی ہے لیکن لیگی اکابرین گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔
اور سونا بھی چاہیے کیونکہ ہم تو ان۔کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے بڑی گاڑیوں کے سواروں کو موٹر سائیکل سواروں کی تکلیف سے کیا غرض۔۔۔۔ہماری داستان اندھیروں سے بوجھل ایک تاریک رات کی بات ہے جس کی راہ میں نصف شب حائل ہے قیائم پاکستان وہ سحر تھی جو ہمارے لیے صبح امید تھی لیکن شاید ہمارے لیے صبح ملال ثابت ہوئی