21

بیول انٹرنیشنل ہسپتال‘ٹرسٹ یا کاروباری ادارہ

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

یہ حقیقت ہے کہ انسان مسافر زندگی مسافت اور اعمال زاد سفر ہوتے ہیں کسی کو انسانیت کے لبادے سے نکل کر پتھر کی صورت ڈھل جانے میں صدیاں نہیں لگتیں کہیں آنکھوں میں اشک نہ ہونے کے باوجود ہرچہرہ اشکبار ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اس خانہ خرابات سے ہر شخص کو رخصت ہوناہے

رنگ وبو اور عیش و نشاط کے اس رنگین وسنگین میلے کی ہلچل میں ہم سب غوطہ زن ہیں کسی کو اس بات کی اہمیت کا احساس نہیں کہ جب ہر شے پر صرف اعمال کی پاس داری ثابت ہوگی

کہ کیا کیا کیسے کیا اور کیا کر کے آئے ان سب سوالوں کا جواب یوم آخرت میں دینا ہوگا،پھر خسارے کے سودے تمام ہوں گے۔ دنیا کی ہر شے کو معدوم ہونا ہے چاہے

جیتا جاگتا انسان ہو یا کوئی غیر مرئی قوت سب نسلوں کے تصور اور یادوں میں رہ جاتے ہیں کل ہم بھی صرف ایک تصور ہوں گے کیونکہ ازل سے یہی ہوتا چلا آیا ہے لیکن ہماری لامحدود ضرورتوں نے ہمیں ہر احساس سے بیگانہ کرتے ہوئے

جائز وناجائز کاموں پر مجبور کردیا ہے۔دور موجودہ میں ہوس زر نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور دوسروں کی مجبوریوں کے احساس سے بے بہرہ کردیا ہے۔

آج چہروں کے پیچھے مکر وفریب بددیانتی اور جھوٹ کی ملمع کاری ہے۔میں نے یہاں عوام کو کبھی خوش نہیں دیکھا بلکہ اسے ہمیشہ طیش کی یا عذاب کی حالت میں دیکھا ہے۔

ہم دوغلے لوگ ہیں یہ دوغلا پن ہی تو ہے کہ ہماری کیفیت ہو کچھ اور ہم ظاہر کچھ کریں۔کچھ ایسا ہی حال بیول انٹرنیشل اسپتال کا ہے جو خطہ پوٹھوہار کے یوکے میں رہنے والے انسان دوست افراد کے باہمی چندے سے ایک ٹرسٹ کے طور بنایا گیا،

اس کی تعمیر کے دوران میں نے بھی اپنی متعدد تحریروں میں اس عوام دوست منصوبے کے خالق اور اس کی تعمیر میں حصہ ڈالنے والوں خراج تحسین پیش کیا

کیونکہ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس بارے بتایا گیا تھا کہ یہ اسپتال اوورسیز پاکستانیوں کے فنڈز سے عوام کو مفت سروس اور مفت ادویات فراہم کرے گا۔

یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ تھا جو یقیناً لائق تحسین تھا تاہم یہ سب خواب ثابت ہوا اپنے افتتاح کے کچھ ہی عرصہ بعد اس اسپتال کو کاروباری بنیادوں پر چلایا جانے لگا

لیکن یہاں ڈائیلاسز اور آنکھوں کے آپریشن مفت کیے جاتے رہے اب وہ اب بند کردیے ہیں یا چلائے جارہے معلوم لیکن او پی ڈی اور سیزر میں عوام کی کھال اتارنے کا پورا بندوبست کیا گیا۔

کچھ کیسوں میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلتوں کے خلاف احتجاج بھی ہوئے ایک بچی سیزر کے بعد انتقال کرگئی جبکہ بچہ بھی نہ بچایا جاسکا لواحقین نے دونوں اموات کا زمہ دار کیس کرنے والی فیمیل ڈاکٹر کی غفلت کو قرار دیتے ہوئے

فیمیل ڈاکٹر پر کیس بھی کیا۔لوٹ مار کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک او پی ڈی میں بخار اور سینہ کی خرابی کے حوالے سے اسپتال لائی جانے والی بچی کی ٹریٹمنٹ کے بعد جو بل انہیں تھمایا گیا

وہ کافی مضحکہ خیز تھا جس میں ڈاکٹر کی چار سو روپے فیس کی الگ رسید دی گئی جبکہ ڈرپ اور دوائیوں کی رسید ایک دی دی جس میں ڈرپ دوائیوں کے علاؤہ ڈرپ لگانے کے چارچز بھی درج تھے۔927 روپے کی رسید دینے کے باوجود 950 روپے وصول کیے گئے

جب مریض کے ساتھ آئے نوجوان نے ڈرپ چارجز اور بل کے علاوہ اضافی رقم کاٹنے پر اعتراض کیا تو اسٹاف کے لوگ اس سے دست وگریباں ہونے پر تیار نظر آئے۔سوچنے کی بات یہ ہے

کہ کونسا ایسا اسپتال ہے جو ڈرپ لگانے کے الگ سے چارجز وصول کرتا ہے۔سو حاصل جمع یہ کہ یہ اسپتال بنا تو غریبوں کو مفت سروس دینے کے لیے تھا لیکن اب انہیں غریبوں کی کھال ادھیڑنے میں مصروف ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں