بیول‘بنیادی مرکز صحت ڈاکٹر سے محروم

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

بیماریاں اور صحت بخش زندگی غرض ہر شے قبضہ قدرت میں ہے بیماری ہے تو اس کا علاج بھی کہیں نہ کہیں موجود ضرور ہوتا ہے اہمیت اس کی تلاش کھوج اور جستجو کی ہے زندگی گذارنے کے لیے مثالی معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے ایسا معاشرہ جہاں ریاست ماں کا رول ادا کرتی ہو جہاں امن ہو انصاف ہو۔حقوق کی پامالی نہ ہو ہر انسان کو مساوی حقوق میسر ہوں اور یہ اس سماج میں ممکن ہوتا ہے جہاں عوام اپنے حقوق بارے آگاہی رکھتے ہوں۔ جہاں عوام کی اکثریت ریاست کے ذمہ اپنے حقوق بارے آگاہی نہ رکھتی ہو جہاں سڑکیں نالیاں بنانے پر سیاست دانوں کا شکریہ ادا کرنا روایت بن چکی ہو وہاں بہتری کی امید ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔آسان سفر کی سہولیات مفت ایجوکیشن اور مفت علاج کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔

لیکن یہاں اول تو اس جانب توجہ ہی نہیں اگر کوئی سڑک بنا دے یا اسکول کالج میں کوئی خستہ حال کمرہ مرمت کروا دے تو ہم اس کی تعریفوں کے ایسے پل باندھتے ہیں کہ اللہ کی امان۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندگان اگر بھولے سے کوئی کام کربھی لیں تو امید رکھتے ہیں کہ اب عوام ان کی جے جے کار کریں گے۔یہ ایک نیگٹیو سائن ہے ہم پر احسان نہیں کیا جاتا یہ ہمارے ٹیکسوں سے جمع رقم سے ہی ہم پر خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنی عیاشوں سے بچ رہنے والی کچھ رقم سے۔پچھتر برسوں میں برسراقتدار رہنے والی مختلف حکومتوں نے آخر قوم کے لیے کیا ہی کیا ہے۔آج بھی عوام کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہے دیہاتوں میں روڑ راستے موجود نہیں۔اسکول نہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں علاج کے لیے اسپتال موجود نہیں اور جہاں اسپتال کی عمارتیں موجود ہیں تو ڈاکٹر نہیں کچھ یہی حال بیول میں قائم بی ایچ یو کا ہے جہاں ایک طویل عرصہ سے ڈاکٹر موجود نہیں تحریک انصاف کے دور حکومت میں یہاں سے منتخب ہونے والے ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری جاوید کوثر نے بی ایچ یو کو 24گھنٹے سروس پر منتقل کروایا اوراسے اپنا کارنامہ بھی گردانا۔

لیکن یہ عوام کو لالی پاپ دینے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔اس یونٹ کو24 گھنٹے سروس دینے کا پابند تو کردیا گیا لیکن اسٹاف وہی رہا جو مارننگ ڈیوٹی کے لیے موجود ہے اسپتال کو ایوننگ اور نائٹ شفٹوں میں سروس کی فراہمی کے لیے اسٹاف میسر نہیں تو 24گھنٹے سروس کیسے؟حد تو یہ ہے کہ مارننگ‘ ایوننگ اور نائٹ تین شفٹوں میں سروس فراہم کرنے والے اس اسپتال میں ایک بھی ڈاکٹر موجود نہیں اسپتال کو پیرامیڈیکل اسٹاف چلا رہا ہے اور صرف مارننگ شفٹ کے لیے دستیاب اسٹاف سے ہی تینوں شفٹوں کو مینج کیا جارہا ہے اس سے قبل مسلم لیگ ن کے منتخب ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری افتخار وارثی کی جانب سے اسپتال کی پرانی خستہ حال بلڈنگ کی جگہ نئی عمارت کی منظوری کروائی جو جاوید کوثر کے دور میں مکمل ہوئی لیکن دونوں نے ڈاکٹرز کی تعیناتی کے لیے کوشش نہیں کی۔

وعدوں دعوؤں اور خوابوں پر زندگی گذارنے والی قوم آج ایک بار پھر انہیں نعروں کی زد میں ہے شکاری آمڈ پڑے ہیں سفید اور بے داغ لباسوں میں ملبوس ہمارے رہبر ورہنماء تسیلوں اور خوابوں کے ساتھ بظاہر ہماری فلاح وبہبود کے نعرے لگانے والے یہ لوگ چہروں پر عوام دوستی کا نقاب سجائے ہوئے ہیں جبکہ اصل میں زندگی کے لیے سسکتے بلکتے لاوارث عوام ان کے نزدیک کوئی معنٰی نہیں رکھتے امید اور ناامیدی کے درناک سمندر میں ڈوبتی ابھرتی عوام گذشتہ پچھتر برسوں سے ان سیاسی جماعتوں کے پرفریب نعروں پر محو رقص ہے یہ سمجھے بغیر کہ ہر طرف گھپ اندھیروں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا ہے ہولناک سائے ہماری زندگیوں کو اپنے خون آشام پنجوں میں دبوچ کر نگل لینے کو بے تاب ہے۔ ہم گذشتہ پچھتر برسوں سے اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں سیاست دانوں کی حقیقت ہم۔سمجھ ہی نہیں سکے۔کیونکہ حقیت تک رسائی دراصل خود شناسی کے راستے سے ہوتی ہے اور راستے پیچیدہ ہی نہیں مشکل ترین بھی ہوتے ہیں۔خود کو سمجھ کر ہی ہم اپنے نام نہاد ہمدردوں کو سمجھ سکتے ہیں سو سوچیں اور سمجھیں کہ جو ہمیں علاج جسی بنیادی سہولت دینے میں سنجیدہ نہیں وہ ہمارے کس قدر ہمددر ہوسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں