کالم

بیوروکریسی

ترقی پذیر ممالک میں بیورو کریسی یا نوکر شاہی ملک کے سیاسی نظام سے کسی طور بھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتے انہیں ہر دور میں برسراقتدارحکومت کی نظروں میں اپنی نوکری بچانے اور اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کے لیے حکومت اور اسکے اتحادی سیاست دانوں کا وفادار اور آلہ کار بن کر رہنا پڑتا ہے تاہم موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے بیورو کریسی کو ملکی امور چلانے کی راہ میں رکاوٹ گردانتی ہے موجودہ وزیراعظم جو بظاہر بدعنوان سرکاری افسروں کے بارے میں سخت لب ولہجہ رکھتے ہیں وہ بھی فی الحال بیوروکریسی پر کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے بے بس دکھائی دے رہے ہیں جسکی وجہ سے حکومت کو ملکی انتظامی معاملات کو چلانے میں دشواری کا سامنا ہے حکومتی موقف کے مطابق آج بھی بیوروکریسی میں بیٹھے اعلی افسران اپنے دل میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں انکے خیال میں آج بھی بیوروکریسی مرکز اور بالخصوص پنجاب میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حمایتی بنی ہوئی ہے بیوروکریسی اور افسر شاہی میں ایسے بااثر افراد اب بھی موجود ہیں جو نواز شریف اور شہباز شریف کے ہمدرد افسران کو ہرطرح کا تحفظ دینے میں سرگرم ہیں چونکہ جمہوریت میں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں تاہم یہ بات بڑی اہم ہے کہ زیرک سیاست دان حکومت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی سرکاری افسران سے اچھے مراسم رکھتے اور رابطے میں رہتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومت کا دورانیہ 5سال تک کا ہوتا ہے تاہم ہمارے ملک کے جمہوری نظام میں جمہوری حکومت کی مدت پوری کرنے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی جو بعض حالات میں درمیان میں ہی تعطل کا شکار ہوجاتی ہے جبکہ ایک سرکاری ملازم ایک طویل عرصے تک عہدے پر فائز رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری نہ کرلے موجودہ مختلف ادوار کی جمہوری حکومتوں میں شامل بعض وزراء جو سیاست کے سبق سے عاری ہوتے ہیں اور جنھیں پہلی مرتبہ وزارت کی ذمہ داریوں کا قلمدان سونپا جاتا ہے وہ اپنی غیر سنجیدہ سیاسی سوچ کی بنا پر خلاف ضابطہ سرکاری کام کرانے پر بضد ہوجاتے ہیں جبکہ سرکاری افسران ان غیر روایتی طریقوں سے انکے احکامات ماننے کو مروجہ قواعدوضوابط سے متصادم خیال کرتے ہیں جسکی بنا پر حکومت اور بیوروکریسی کے مابین کشیدگی جنم لیتی ہے اور اختلافات رفتہ رفتہ ابھرکر سامنے آتے ہیں ملک میں امن وامان کے قیام میں افسر شاہی کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے ضلع کا حکمران ڈپٹی کمشنر کہلاتا ہے جبکہ تحصیل کی سطح پر یہ انتظامی عہدہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ہوتا ہے تمام محکمے کے ضلعی سربراہان ڈپٹی کمشنر کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس عہدہ کا پاس رکھتے ہوئے تمام افسران اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کو قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرحال میں احسن طریقے سے نبھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ہمارے ملک میں قابل دیانت دار اورفرض شناس افسروں کی کمی نہیں ہے تاہم بدقسمتی سے بعض مواقع پر سیاسی مداخلت اور حکومتی دباؤ کے زیراثر یہ افسران اپنے فرائض منصبی درست سمت میں ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ان انتظامی عہدوں پر بیھٹے افراد عوامی مسائل کو قانونی وآئینی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کرنے کی سعی کرتے ہیں جس میں تمام قانونی پہلوؤں اوراخلاقی تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے تاہم بعض مواقع پر بنا حقائق کو سمجھے کسی ایک واقعے کو جواز بنا کر فرض شناس افسروں پر بلا جواز عوامی ردعمل اور صحافتی حلقوں کیجانب سے تنقید کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جبکہ انتظامی عہدہ پر بیٹھنا افسر اپنے مشاہدات کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ اختیارات کا استعمال کب
کہاں اور کسطرح کرنا ہے تاہم موجودہ حکومت بیورو کریسی کو لگاتار شک کی نظر سے دیکھتی ہے جبکہ حکومت اپنی کارگردگی پر پردہ ڈالنے کی راہ میں اسے رکاوٹ تصور کرتی ہے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ کے پرہجوم رمضان بازار میں فردوس آپا نے سونیا صدف نامی ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو ڈانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ افسر شاہی کی کارستانیاں حکومت بھگت رہی ہے تاہم اسسٹنٹ کمشنر کا فردوس آپا کو جواب میں اپنی شائستہ گفتگو سے ترکی بہہ ترکی جواب دینا قابل تحسین ہے اس واقعے کے بعد فردوس آپا کے اسسٹنٹ کمشنر کیساتھ انکی گفتگو پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے چیف سیکرٹری پنجاب نے بھی اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خاتون سرکاری افسر کے ساتھ فردوس آپا کی غیر مناسب رویہ کی مذمت کی تھی تاہم بعض حلقے ایسے واقعات کو حکومت کیجانب سے عوام کی نظروں میں دھول جونکھنے اور حکومتی کارگردگی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش قرار دے رہے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے برعکس عوامی توقعات پر پورا اترنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور اپنی ناکامی کا غصہ بیوروکریٹس پر اتارنے میں لگی ہے بظاہر ملکی امور بہتر انداز میں چلانا موجودہ حکومتی ٹیم کے بس کی بات نہیں دورحاضر میں ملکی سیاسی منظر نامے میں ہلچل اورغیر یقینی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ رواں سال موجودہ اسمبلی تحلیل اور نئے عام انتخابات کے انعقادکے قوی امکانات موجود ہیں مہنگائی بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافے سے عوام شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں جس سے عوام کو روزمرہ کے معمولات زندگی چلانے میں پریشانی لاحق ہے۔

admin

Recent Posts

مسرت شیریں کے نام ایک شام

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…

5 hours ago

*کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: وزیراعظم

راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…

9 hours ago

معذور افراد کو محض ہمدردی کے مستحق نہیں بلکہ بااختیار شہری تسلیم کیا جائے

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

9 hours ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

12 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی “زیرو ویسٹ صفائی آپریشن”

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…

12 hours ago

موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت اور بدسلوکی پر مقدمہ درج

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…

12 hours ago