تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے امریکی کہہ رہے تھے کہ ہم نوے کی دہائی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور ہم بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ چکے ہیں لیکن امریکہ نے وہی کیا جو نوے کی دہائی میں سوویت یونین اور اس نے خود کیا تھا اور ہم نے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا جس غلطی کا ارتکاب نوے کی دہائی میں کیا تھا اور طالبان بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں جس کا ارتکاب مجاہدین نے کیا تھا نوے کی دہائی میں ہونا یہ چاہے تھاکہ سوویت یونین انخلا سے قبل نجیب حکومت اور مجاہدین کے درمیان مفاہمت کرائی جاتی کیونکہ اصل فریق وہی تھے لیکن جینوا معاہدے کے ذریعے سوویت یونین‘امریکہ اور پاکستان نے سوویت افواج کے روڈ میپ پر تو اتفاق کیا لیکن نجیب حکومت اور مجاہدین کے معاملے کو مستقبل پر چھوڑ دیا سوویت افواج کے انخلا کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کا سہارا چھن گیا اور وہ مجاہدین کے ساتھ مفاہمت پرزور دیتے رہے لیکن مجاہدین ان کی حکومت کو سوویت یونین کی کٹھ پتلی قرار دے کر اسے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے مجاہدین کی جیت امریکہ‘عرب دینا اور پاکستان کی مدد اور سوویت یونین کی اپنی غلطیوں کی بھی مرہون منت تھی لیکن مجاہدین یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف انہوں نے اپنے جذبہ ایمانی کے باعث سوویت یونین کو شکست دی چنانچہ وہ زمین پر پاؤں رکھنے پر آمادہ نہیں تھے انہوں نے بزور بندوق افعانستان پر قبضہ کرنے پر اصرار جاری رکھا دوسرے مرحلے میں وہ پھر آپس میں لڑ پڑے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی باہمی لڑائیوں کے باعث افعانستان تباہ وبربادہوا آخر میں مجاہدین کو طالبان کے ہاتھوں عبرتناک مار پڑی امریکہ کو یہ سزا ملی ایک دن وہی افعانستان القاعدہ کا گڑھ بن کر خود امریکہ کے لئے وبال جان بن گیااور ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور سب کردار اپنی ماضی کی حماقتوں کو دہرارہے ہیں امریکی قیادت گذشتہ بیس برسوں میں بار بار یقین دلاتی رہی کہ وہ نوے کی دہائی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی لیکن وہ اس سے بھی بدتر بلکہ مہلک ترین غلطیوں کی مرتکب ہونے جا رہی ہے افعانستان کو تباہی اور جنگ کے سپرد کرکے امریکہ وہاں سے اپنی افواج کو نکال رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کی مفاہمت پہلے کرائی جاتی اور پھر غیر ملکی افواج نکل جاتیں اس صورت میں امریکہ‘کابل حکومت پر بھی زیادہ دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوتا اور طالبان سے بات منوانا بھی نسبتاََ آسان ہوتا لیکن افغان حکومت کو علیحدہ رکھ کر امریکہ نے طالبان سے ڈیل کر لی اس ڈیل نے افغان حکومت کی پوزیشن کو نہایت کمزور کر دیا جبکہ طالبان فاتح کے طور پرسامنے آئے چنانچہ ان کا رویہ نہایت جارحانہ ہے دوسری طرف افعان حکومت بھی طالبان سے مفاہمت کو اپنے خاتمے کی تمہید سمجھ رہی ہے پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ طالبان اور امریکہ کی ڈیل میں تعاون سے قبل دونوں فریقوں کو مجبور کرتا کہ وہ بین الافغان مفاہمت کریں لیکن اس نے بھی بین الافغان مفاہمت کو دوسرے مرحلے پر چھوڑکر امریکہ اور طالبان کی ڈیل کروانے میں مدد فراہم کی پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ اسی طرح افعانستان سے نکل رہا ہے جس طرح سوویت یونین نکلا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں امریکہ افواج نکل تو رہی ہیں لیکن امریکہ نہیں نکل رہا بلکہ اس کے بعدبھی صرف افغان حکومت نہیں بلکہ بڑی حد تک طالبان کا کنٹرول بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہی رہے گا
سوویت یونین کی طرح امریکہ کے بھی ٹکڑے ہوئے اور نہ ہی وہ اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوا امریکہ اس کے بعد بھی بڑی اقتصادی اور فوجی
طاقت ہے جتنے ڈالر سالانہ وہ جنگ پر خرچ کرتا رہا ہے اس کا دسواں حصہ بھی اگر افعانستان اور خطے میں خرچ کرے تو افعانستان کے مختلف کرداروں سے اپنی مرضی کا کام لے سکتا ہے جب تک امریکی افواج افعانستان میں موجود تھیں تو استحکام لانا اس کی ذمہ داری تھی جبکہ انتشار پھیلانے کا کام اس کے مخالف ملکوں کے سپرد تھا اب جب اس کی افواج نکل جائیں گی تو وہ پاکستان کا محتاج نہیں رہے گاحقیقت یہ ہے کہ اگر امریکہ‘چین‘ایران اور پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی کرنا چاہتا ہے تو اس کا آسان راستہ افعانستان میں انتشار پھیلانا ہے اسی وجہ سے بین الافغان مفاہمت امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ہر قیمت پر اس کی کوشش کرنی چاہیے طالبان بھی مجاہدین کی طرح سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی ہے حالانکہ اگر امریکہ کی اپنی غلطیاں اور پاکستان‘ایران اور روس وغیرہ کا کردارنہ ہوتا تو اس انداز میں ان کی فتح کبھی ممکن نہ ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر افعانستان پر قابض ہو سکتے ہیں اور اسے چلا بھی سکتے ہیں حالانکہ وہ قبضہ تو کر سکتے ہیں لیکن چلا نہیں سکتے طالبان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ افعانستان کو چلانے کیلئے رقم کی ضرورت ہو گی اور اگر وہ تنہا اپنی حکومت قائم کریں گے تو باہر سے رقم کا حصول ممکن نہیں ہو گا انہیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جب تک امریکی افواج سے مقابلہ تھاتو پاکستان‘ایران‘ چین وغیرہ کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں لیکن اگر وہ تنہا اپنے اقتدار اور امارت اسلامی کے قیام پر اصرار کریں تو ان ممالک میں سے کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہو گااور اگر یہی حالت رہی تو کچھ عرصے بعد طالبان کا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے جو مجاہدین کا ہوا تھا
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…
راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…
معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…
عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…
کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…
کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…