جس سماج میں ہم زندہ ہیں وہاں حرص و طمع اور لالچ کے مارے لوگ چہروں پر شرفاءکا نقاب ڈالے عبرت ومکر کے تمام حربے اس سماج کے کمزور غریب اور بے اختیار لوگوں پر استعمال کرتے ہیں اور بڑی بے خوفی اور دیدہ دلیری سے کرتے ہیں۔معاشرتی تقسیم سے غریب حالات کی زنجیروں میں قید ہیں وہ بوسیدہ در دیوار تک ہی محدود رکھے جاتے ہیں اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ اس ملک کے بے پہنچ لوگ اپنے شب وروز اس طرح گذار رہے ہیں کہ ان کی ہر سانس ان سے جینے کا خراج مانگتی ہے ایسے لوگ اس ملک کی ایلیٹ کلاس کی رنگین شاموں‘سنگین ہنگاموں اور تحیر انگیز چالوں سے ناآشا ہیں۔
بظاہر شرفاءایسی بازی گری کے ماہر ہیں کہ اپنے تمام تر جرائم اور لوٹ مار کی وارداتوں کے ساتھ بھی معززین شمار کیے جاتے ہیں ان معاشرتی ناسوروں اور درندوں کی ہوس زر نے غریبوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا ہے اس کائنات کی بنیاد میں اللہ رب العزت نے کیسے کیسے رمز پوشیدہ کر چھوڑے ہیں نہ صرف یہ بلکہ انتہائی عجیب وغریب فطرت وکردار اور عادت واطوار کے یہ شرفاءہمارے ارد گرد بسا دئیے عہد حاضر کی برق رفتار زندگی اور ہر لمحہ بدلتی دنیا میں وہ خواب دھندلا چکے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے آزادی کی جنگ لڑنے کے دوران دیکھے تھے آجکل کی ہما ہمی میں اس ملک کی ایلیٹ کلاس اپنے فطرت اور اپنے اصل سے بچھڑ کر زندگی کی سچائیوں کی پہنچان کھو چکی ہے یہ جو کچھ ہمیں دیکھاتے ہیں اور جو ہمیں نظر آتا ہے وہ پورا سچ نہیں ہوتا حقیقت کہاں دور چھپی ہوتی ہے ہمارے شرفاءہمارے ریلیف کے جو منصوبے لاتے ہیں بظاہر وہ ہماری مدد اور بہتری کے منصوبے لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے کہیں کمیشن‘کہیں خرد برد تو کہیں ککس بیک کی بڑی وارداتیں موجود ہوتی ہیں۔
بے نظیر بھٹو شہید کی المناک موت کے بعد آصف علی زرداری کی قائم ہونےوالی حکومت میں غریبوں کی مدد کرنے کے حوالے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام لانچ کیا گیا جس کی بہت زیادہ تشہیر بھی کی گئی یہ پروجیکٹ دراصل اپنے لوگوں کو نوازنے اور لوٹ مار کا پروجیکٹ تھا جس کے تحت ملنے والی رقم سے تقسیم کار پرائیویٹ لوگ فی کارڈ دو ہزار تک کٹوتی کرتے ہیں۔اور یہ کٹوتی ہر صوبے میں برابر کی جاتی ہے۔پنجاب میں بھی تقسیم کاری کے ٹھیکے دار بڑے پیمانے پر مستحق خواتین سے کٹوتیاں کرتے ہیں سندھ میں اس مال حرام سے بہت اوپر تک حصے پہنائے جانے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ہر شہر اور ہرقصبے میں رقم تقسیم کرنے والے ڈیوائس ہولڈر قلم فروش صحافیوں سمیت ہر اس طاقت کو حصہ دیتے ہیں جو اس لوٹ مار پروگرام کی کٹوتی پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے اس بہتی گنگا میں بڑی سیاسی شخصیات سیاسی کارکنان معاشرے کے کن ٹٹے بدمعاش سرکاری افسران سب ہی ہاتھ دھوتے ہیں۔
اگر حکمران غریبوں کی مدد کے حوالے سے مخلص ہوتے تو ان غرباءکو بھکاری بنانے کے بجائے انہیں بتدریج پا¶ں پر کھڑا کرنے کے منصوبے لاتے۔یا ایسا نظام وضع کرتے کہ یہ رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے گھرانوں کی دہلیز تک ایسے پہنچتی کہ ان کی عزت نفس مجروع نہ ہوتی لیکن ایسا کسی طور ممکن نہیں کیونکہ یہ ریلیف فراہمی کا منصوبہ نہیں یہ منصوبہ صرف لوگوں کو سنگین مسائل سے لاتعلق کرنے کا منصوبہ ہے یہ منصوبہ اپنے ووٹرز کو نوازنے کا منصوبہ ہے۔یہ غریب خواتین کی تذلیل کا منصوبہ ہے جسے چاروں صوبوں میں قائم مختلف جماعتوں کی حکومتیں یکساں طور پر چلا رہی ہیں ۔کسی صوبے کی حکومت نے کوئی ایسا میکنزم بنانے کی کوشش ہی نہیں کی
جس سے منصوبے میں ہونے والی لوٹ مار بند کی جاسکے جس سے یہ رقوم احترام کے ساتھ مستحق گھرانوں تک پہنچائی جاسکیں کیونکہ ہم لوگ تو شرفاءکی ترجیح نہیں ہیں ان کے لیے جیوے جیوے کے نعرے لگانے اور کما کر حصہ پہنچانے والے ان کی ترجیح ہیںغریب کا مقدر یہی ہے۔کہ ان کی خواتین چند ہزار لینے کے لیے پورا پورا دن لائنوں میں کھڑی رہیں اور پھر اپنے نام پر آنے والی رقم سے لیٹروں حرام خوروں کی عیاشیوں کے لیے کٹوتیاں کروائیں۔