بیمار معیشت،غریب عوام اور امیر حکمران

شاہد جمیل منہاس/جس ملک میں کولر پر رکھے گلاس کو زنجیروں سے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجد میں آخرت سے ذیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے ملکی معشیت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ پہلے خود کو بدلیں نظام خود بخود تبدیل ہو جائے گا۔ World Devlopment Report 2014 کے مطابق امریکہ کی فی کس آمدنی 50120 ڈالر ہے جبکہ برطانیہ کی 38500 ڈالر ز ہے۔ 2012 کے سروے کے مطابق امریکہ، جرمنی، فر انس اور کینیڈا کی فی کس آمدنی با لترتیب 36720,41890,50120 اور 2320ہے۔ جبکہ کم ترقی یافتہ اور درمیانی آمدنی والے ممالک بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا اور چائنہ کی فی کس آمدنی 15030,1260,840 اور 5740 ڈالر سالانہ ہے، ایک محتاط ندازے کے مطابق دنیا کی 7.046 بلین آبادی میں سے 3 بلین لوگ 2 ڈالر یومیہ سے کم آمدنی کما کر زندہ رہنے پر مجبور ہیں اور 1.3 بلین افراد ایسے ہیں کہ جو دن کا ایک ڈالر بھی نہیں کما رہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 60.19 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس امید پر زندہ ہے کہ کل حالات اچھے ہو جائیں گے اور ہم خوشحال گھرانوں میں شا مل ہو جائیں گے۔اور یہ کل کسی صورت بھی آج میں تبدیل نہیں ہو گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی کل آبادی کا 80 فیصد غربت کی چکی میں پس رہا تھا لیکن آج اس کے حالات پاکستان سے بہتر ہیں کیونکہ پاکستان کے دو بڑے صوبوں کے سرمایہ کار اپنی فیکٹریوں سے کروڑوں روپے کی مشینری انرجی کرائسز کی وجہ سے بنگلہ دیش شفٹ کر چکے ہیں۔ یہ ملک اس لیے خوش قسمت ہے کہ اسے مفت میں بڑے بڑے کارخانے اور ان کو چلانے والے ہنر مند پاکستانی مل گئے ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ دور میں جدید مشینری مہنگا ترین اثاثہ ہے جس کے لیے پاکستان جیسا ملک پیدائش سے لے کر اب تک اقساط ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے نشیب و فراز بہت عجیب اور غیر متوقع ہوتے ہیں۔ آج سے 25 برس پہلے اسی پاکستان نے ترقی کی دوڑ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کس کی نظر اس پاک سرزمین کو لگی کہ دہشت گردی سے لے کر بدعنوان اہل اقتدار فرعونوں نے دن رات غریبوں کا خون نچوڑا اور وہ خون بیرون ملک منتقل کر دیا گیا۔ یہ عمل آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا% 75 تناسب غریب یا کم ترقی یافتہ ممالک میں رہتا ہے۔ پاکستانی معیشت غیر ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غریب معیشت میں شمار ہونے لگی ہے۔اس غریب ملک میں ہمارے کچھ وزراء کے پاس جہاز ان کی پسندیدہ سواری ہے۔ ملکی دولت کا 80 فیصد چند گھرانوں کے پاس ہے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کسی و قت پاکستا ن کے کسی حصے میں معمول سے زیادہ پانی بھی آ جائے تو احتیاطً بیرون ملک کیلئے ٹکٹیں کٹوا لیتے ہیں۔ حالات کا بغور جائیزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں بینکاری، سرمایہ کاری، سرکاری محکمے سست رفتاری کے ساتھ ساتھ بد عنونی کا سہارا لیکر رینگ رہے ہیں۔افسوس صد افسوس کہ ایک طرف غریب عوام پانی میں ڈوبی ہوتی ہے تو دوسری طرف اسلام آباد کے صاف شفاف قدرتی ماحول کو قہر آلود بنا دیا جاتا ہے۔ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل نہ ہو تو اور کیا ہو کہ ہر سال سیلاب کی ذد میں آنے والی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو بغیر خوراک کے لیکر پانی میں کھڑی ہیں اور کسی کاروباری وزیر کو یہ تو فیق نہیں ہوئی کہ اپنی ایک فیکٹری کا ایک حصہ فروخت کر کے غریب عوام کو سکون مہیا کر دیں تا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی ان کا مقدر ٹھہرے۔ انسان مر جاتا ہے لیکن اس کے اعمال زندہ رہتے ہیں، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔ کوئی مر کے ا مر ہو گیا ۔ کوئی زندہ بھی گمنام ہے۔صبح سویرے جب ہم اپنے بچوں کو سکول لیکر جاتے ہیں تو سڑک پر کھلونے بیچنے والا یا شیشے صاف کرنے والا بچہ ہمیں روز یہ پیغام دیتا ہے کہ میرا دل بھی کر رہا ہے کہ میں بھی سکول جاؤں اور جب اشارہ کھلتا ہے تو ایک سوال ہمارے اذہان میں پیدا کر دیتا ہے کہ کیا خدا نے ہر خوشحال فرد کو دولت اس لئے دی ہے کہ وہ خود غرض ہو جائے۔ سرمائے کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق روپے پیسے اور ملکی اثاثوں سے ہے لیکن دوسری قسم انسانی سرمایہ ہے جس کا تعلق کسی ملک کے افراد کا ہر لحاظ سے خوشحال ہوناہے۔ جسے Human Cupital Formation کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کے عوام تعلیم یافتہ، ہنر مند اور غذائی اعتبار سے خوشحال اور صحت مند نظر آ رہے ہوں۔ گندگی کے ڈھیروں پر کاغذ چننے والے بچے غذائی اعتبار سے کیسے ہوں گے؟ یہ ہے سوال اس دھرتی پر بسنے والے ہر مطمئن انسان سے۔ ”توکی جانے یار امیرا ۔ روٹی بندہ کھا جاندی اے“۔رزق کی تلاش اکثر انسانوں کو ہلاکت،کمزوری اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے جان کی بازی ہار جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ مت بھولیں کہ بے روزگاری جب اپنے عروج پر ہوتی ہے تو خودکشی کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس کی سزا جہنم کی آگ ہے۔ لیکن یہ بھی مت بھولیں کہ جب کسی حکومت یا حکمران کی سستی کی وجہ سے کوئی انسان خودکشی کرتا ہے تو وہ تو جہنم رسید ہوتا ہی ہے لیکن وہ حکمران بھی اس کے ساتھ جہنم واصل ہوگا کہ جس کو عیش و عشرت کے نشے میں باقی انسان کیڑے مکوڑے محسوس ہوتے ہیں۔ آج اگر پاکستان کی فی کس آمدنی کم ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے تو اس کے ذمہ دار ہم عوام بھی ہیں لیکن بڑی ذمہ داری ہمارے ہر دور کے حکمرانوں کی ہے کہ ان کے زیر اثر بسنے والے عزت کی ذندگی گزاریں۔ حضرت عثمان غنی ؓنے اللہ سے دعا کی ، اے اللہ تونے مجھے اتنا دیا ہے کہ اب مزید مال کی مجھے طلب نہیں۔اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے وحی کے ذریعے فرمایا۔عثمان سے کہہ دو وہ میری راہ میں خرچ کرنا چھوڑ دے میں اسے دینا چھوڑ دوں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں