بیماری اک بہانہ

میاں محمد نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں بطور وزیر خزانہ پنجاب1981 میں کیا بعد ازاں 1985سے 1990 تک دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے اور اقتدار کا ھما ان کا اتنا عاشق ہوا کہ تین مرتبہ ملک پاکستان کے وزیراعظم رہے آخری مرتبہ ان کو صادق و امین نہ ہونے پر اسمبلی رکنیت سے نااہل کر دیا گیا 6جولائی2019 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید بامشقت سنائی گئی دوران قید بیمار ہونے پر 25 اکتوبر 2019 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا جیل سے رہائی کے بعد سروسز ہسپتال اور بعد میں گھر کے اندر ہی انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا تقریباً یہ سارا عمل گورنمنٹ آف پنجاب کی زیر نگرانی جاری رہا اس سارے معاملے کی نگرانی ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر یاسمین راشد کر رہی تھیں جو خود بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں لیکن کچھ لوگوں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور دماغ کو ماؤف کر دیا کہ انہوں نے بھی وہی کچھ دیکھنا اور بولنا شروع کردیا جو وہ چاہتے تھے اس طرح وزیراعظم اور لاہور ہائی کورٹ میں رپورٹ دی کہ ان کا علاج یہاں پر ممکن نہیں اس لیے فی الفور ان کو بیرون ملک بھیج دیا جائے بصورت دیگر نقصان ہو جائے گا آخر کار اس ساری کہانی سے ڈر کر وزیراعظم نے بھی ہتھیار ڈال دیئے 19 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں چھ ہفتوں کے لیے بیرون ملک علاج کے لیے بھیج دیا گیا یہ ساری باتیں اس لیے ضبط تحریر میں لایا ہوں کیونکہ دو دن پہلے نواز شریف صاحب کے ایک انڈین نژاد ڈاکٹر فیاض شال نے ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ نواز شریف صاحب انجیو گرافی کرائے بغیر سفر نہ کریں وہ علاج کے بغیر پاکستان گے تو ان کی حالت بگڑ سکتی ہے وہ کھلی جگہ میں چہل قدمی کریں اور کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں خاص کر عوامی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں مزید یہ کہا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کے باعث وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اس لیے وہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں جو ذہنی دباؤ کا باعث بنے اور ساتھ ہی ساتھ سفر سے اجتناب کیا جائے اگر خدا ناں خواستہ کرونا ہو جاتا ہے تو سانس لینے کی دشواری سے دل پر بوجھ بڑھے گا اور ان کی طبیعت غیر متوازن ہو سکتی ہے اس میڈیکل رپورٹ کے دوسرے دن ہی میاں محمد نواز شریف کی ایک ویڈیو سامنے آتی ہے جس میں وہ ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں اور ایک شخص ان کو بریفنگ بھی دیتا دکھایا گیا ہے اور فیکٹری کا معائنہ کرتے بھی دیکھایا گیا ہے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کرونا ایس او پیز کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا اور کسی نے ماسک بھی نہیں پہنا ہوا سوائے نواز شریف صاحب کے یہ فیکٹری نیلسن کے مقام پر ہے جو لندن سے 450 کلومیٹر سے زیادہ دور ہے یعنی اسلام آباد سے لاھور جتنی مسافت کی دوری ہے ان کے بیٹے کا موقف ہے کہ یہ دو تین ماہ پہلے کی ویڈیو ہے میں خود انہیں لے کر گیا تھا یہاں پر سوال یہ نہیں ہے کہ وہ کل کی ہے یا دس دن پہلے کی کیونکہ میاں صاحب بیمار دو سال سے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جو ڈاکٹر جہاز کے آرام دہ سفر سے منع کر رہا ہے وہ اتنا طویل سفر گاڑی پر کرنے پر کیسے راضی ہوا اور عوامی مقامات پر جانے سے روکنے والا ایک فیکٹری کے دورہ کی اجازت کیسے دے سکتا ہے سونے ہے سہاگہ بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کیے لوگوں سے میل ملاپ بھی برداشت کرلیا گیا یہ ساری چیزیں قابل قبول ہیں مگر نہیں تو پاکستان کا سفر قابلِ قبول نہیں اور یہ ایسا انوکھا مریض ہے جو شدید بیمار بھی ہے اور علاج بھی نہیں کرا رہا اور نہ ہی احتیاط
برت رہا ہے اور اس کا معالج تھیوری اور بتاتا ہے اور پریکٹیکل کچھ اور کرواتا ہے میڈیکل رپورٹ جمع کرانے کے معا بعد اس ویڈیو کا منظر عام پر آنا ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے کافی ہے اور یہ بھی باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ نواز شریف صاحب کے نزدیک ہمارے آئین قانون عدالتوں کی کیا حیثیت ہے میرے خیال میں تو انہوں نے اس ویڈیو کے ذریعے ھمارے آئین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے اور منہ چڑا کر کہ رہے ہیں میں چھ ہفتوں کے لیے آیا تھا سوا دو سال ہو گے ہیں واپس نہیں جاؤں گا کر لو جو کچھ کرنا ہے میں نہیں آتا اتنی جرات ہے تو ضامن کے خلاف تادیبی کاروائی کر کے دکھاؤ تم میں تو اتنی جرات نہیں ہے جو سوا دو سال پہلے مریم میری تیمارداری کے لیے ضمانت پر رہا ہوئی تھی اس کی ضمانت منسوخ کر سکو دونوں تمارے سامنے گھومتے رہتے ہیں ان کے خلاف تم کچھ نہیں کر سکے تو میرے خلاف کارروائی کیسے کرو گے سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ سارا کچھ کون کر رہا ہے وہ شخص جو اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر خزانہ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہا جس کی پارٹی اس وقت بھی پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے جس کا نعرہ ہے ووٹ کو عزت دو گلی محلے شہر میں وہ کہتا تھا مجھے کیوں نکالا اگر اس مرتبہ ومقام کے لوگ آئین وقانون کو اپنے پاؤں تلے روندیں گے اور عدالتوں کو جوتے کی نوک ہے رکھیں گے تو پھر ملک کا اللہ حافظ ہے جب آپ آج خود عدالتوں کی کاروائی کا حصہ نہیں بنیں گے اور ان کے فیصلوں کا احترام نہیں کریں گے تو کل برسرِ اقتدار آکر لوگوں کو آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنے کا بھاشن کیسے دیں گے خاص کر اس سارے منظر نامے میں عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے منہ دیکھتے رہیں گے تو پھر عنقریب ہر کوئی اپنی عدالت لگائے گا اور پاکستان کسی افریقی ملک کا نقشہ پیش کر رہا ہو گا اس لیے بیماری کے بہانے کو ختم کر کے قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں